کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 74
6. موضوعاتی مطالعہ کے باب میں ایمانیات کا ذکر چھیڑا تو ایمان بالمعاد / آخرت کا تذکرہ تک محذوف قرار پایا۔ اُسوۂ حسنہ کا باب کُھلا تو بعثت کے مقصد کا تذکرہ خارج اَز بحث ٹھہرا، دعوتِ و تبلیغ اورہجرت مدینہ کے ادھورے اور بے روح تبصروں پر محدود رہا۔ اور بس یہی حال ’اَخلاق و آداب‘اور ہدایت کے سر چشمے، کے عنوانات و ابواب کا ہے اور ؏ دیکھتا جا شر ماتا جا کے مصداق ہے! تفصیلاتِ نصاب سے یہ بات ازخود واضح اور مبرہن ہے کہ مرتبین و مؤلفین حضرات وخواتین نے خود اپنے آپ کو، اپنے کاز کو اور اپنے مضمون کی مقصدیت کو چند ٹکوں کے عوض فروخت کیا ہے اور حمیتِ دین کے اَدنیٰ تقاضے کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں کہ اس مملکتِ خداداد کی کمان و عنان کو کسی طرح کے لوگوں کے سُپرد کرنے چلے ہیں۔ جہاں تک اس کتاب کے دوسرے حصے کا تعلق ہے جو’مطالعہ پاکستان‘ کہلاتا ہے یہ بھی خادمِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ذاتی سوچ سے بہرحال متصادم دکھائی دیتا ہے۔ ملاحظہ فرمالیجئے: پہلا عنوان تحریکِ پاکستان سےمتعلق ہے۔ یہ تحریک پاکستان کی غرض و غایت، مقصدیت، ماحولیاتی اَسباب و محرکات، مزاحم قوتوں کا رول، قائدین تحریکِ پاکستان اور ان کی سر توڑ کاوشیں ایسے لازمی و لابدی جائزوں سے با لعوم خالی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو کہ حب الوطنی، قدر دانی، اَسلاف اور اُن کی میراث سے محبت و وابستگی نیز ان کے ایثار و اخلاص سے اُلفت اور ؏ ’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘ کی بنائے امتیاز و اِنفرادیت ایسے جذبات کو مہمیز دیتے اور تحریک بخشتے ہیں۔ مگر یہا ں تو حال یہ ہے کہ ؏ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا اس تبصرے اور تجزیئے کا حاصل یہ ہے کہ اَساتذہ کرام والدین، طلباء وطالبات اور بالخصوص اہل فکر ودانش اس نصاب وکتاب کی ترویج سے قبل فوراً اپنے اپنے محاذ پر متحرک اور مستعد ہو جائیں اور ایک بھرپور احتجاجی تحریک برپا کریں اور منوائیں کہ