کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 67
مطمئن کیا۔
آپ کے فتاوٰی پورے ملک میں مختلف رسالوں اور جریدوں کی زینت بھی بنے۔ایک دفعہ مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’مولانا سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی لائبریری کتنی بڑی ہے۔‘‘
فتویٰ نویسی میں آپ کا اُسلوب محدثانہ تھا۔ قرآن و احادیث سے اِستدلال کرتے۔ ساتھ ہی فقہی اختلاف کو بھی واضح کرتے مثلاً قرآن اور دینی تعلیم کی اُجرت کے بارے میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کی روشنی میں پوچھے گئے سوال کا جواب یوں تحریر کرتے ہیں:
’’مسئلہ مذکورہ بالا میں اہلحدیث اور حنفی حضرات کا اختلاف ہے۔ اہلحدیث اور جمہور علما قرآن و حدیث اور دینیات کی تعلیم پر اجرت، مشاہرہ لینا جائز کہتے ہیں اور متقدمین احناف میں سے بعض اس کو نا جائز کہتے ہیں۔ اور متاخرین حنفیہ اہلحدیث کے ساتھ متفق ہو گئے ہیں۔
رمضان شریف میں نماز تراویح میں حفاظ قرآن مجید سناتے ہیں تو ان کو بہت کچھ دیا جاتا ہے۔ اہلحدیث اور حنفیہ کا اس پر عام طور پر تعامل موجود ہے۔ کوئی کسی کو حرام خور نہیں کہتا۔ اسی طرح مدارس عرب و عجم میں تعلیم و تبلیغ پر مشاہرے لیے جا رہے ہیں اور دیئے جا رہے ہیں۔بلوغ المرام میں ہے: ’’حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بہت ہی لائق(تحسین) چیز جس پر تم مزدوری حاصل کرو الله کی کتاب ہے۔‘‘ (بخاری)
یہ حدیث نہایت درجہ کی صحیح ہے۔تاہم باقی رہی بات حدیث عبادہ کی تو وہ ضعیف ہے۔ اس حدیث کی سند میں مغیرہ بن زیاد مختلف فیہ ہیں۔ وکیع اور یحیٰ نے اس کو ثقہ کہا ہے اور ایک جماعت نے اس میں کلام کیا ہے۔ امام احمدنے اس حدیث کو منکر کہا ہے۔ ابوزرعہ نے کہا کہ اس کی حدیث سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ حدیث ابن عباس عام ہے اور حدیث عبادہ خاص ہے، عام اور خاص کا مقابلہ ہو تو عام کی تخصیص کی جائے گی۔هٰذا هو المرام والله أعلم بحقیقة الکلام
11۔ مقالات و فتاویٰ (اُردو ترجمہ) از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمۃاللہ علیہ
آپ کا پورا نام ابو عبداللہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ آل