کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 66
حدیثِ رسول سے اس کو یہ مسئلہ دکھایا… ان کی سختی صرف دینی غیرت کی بنا پر تھی اور محبت و الفت کا معیار الله اور اس کے رسول کی اِطاعت تھی۔ کتاب دیکھنے، خریدنے اور حفاظت سے رکھنے کا بہت شوق تھا۔ آپ کی آمدنی کا معقول حصّہ کتب کی خریداری کے لیے وقف تھا۔ آپ کا کتب خانہ تقریبًا پانچ ہزار کتب پر مشتمل تھا۔ ان میں لغت،تفسیر،احادیث،شروح اَحادیث،اُصول حدیث، غریب الحدیث، فقہ، اصولِ فقہ، تاریخ، صرف و نحو، منطق، فلسفہ اور طب معقولات اورمنقولات کی کتابیں تھیں۔ آپ چونکہ مناظر بھی تھے۔ اس لیے مختلف مذاہب کا مطالعہ ضرور کرتے۔ عیسائیت، یہودیت، بہائیت، بابیت، شیعیت اورمرزائیت وغیرہ پر خاصی نظر تھی۔ ان مذاہب پر بے شمار کتب آپ کے پاس تھیں۔مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ایک دفعہ ’ختم بر طعام‘پر ایک رسالہ لکھنے کا عرض کیا تو اس کی تصنیف میں لغت سے لے کر اس کی تاریخ اور پھر قرآن و حدیث کی روشنی میں یوں بحث کی کہ لوگ حیران تھے ۔ آپ ہمہ وقت باوضو رہتے۔ جماعت کی پابندی تو زندگی کا معمول تھا۔ اگر سفر میں ایک ساتھی بھی ہوتا تو اَذان کہہ کر جماعت کراتے۔سفر میں ضرورت کے مطابق جمع تقدیم اور جمع تاخیرسے نماز پڑھتے۔تہجد اور اشراق کبھی نہ چھوڑتے، رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے۔ تمام زندگی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشعل راہ بنایا۔اتباعِ رسول کا بڑا خیال رکھتے۔ ۱۹ ستمبر ۱۹۸۱ء پانچ بجے شام کو بورے والا میں الله کو پیارے ہو گئے۔ [1] آپ جو فتوٰی دیتے اس کی نقل بھی اپنے پاس رکھتے۔ مولانا محمد یوسف صاحب مہتمم دارالحدیث راجو وال( اوکاڑہ) آپ کے فتاوٰی کومرتب کروا رہے ہیں۔ بقول ڈاکٹرحافظ عبدالرحمٰن بن مولانا محمد یوسف صاحب تین ہزار صفحات ہو چکے ہیں۔ عوام عام طور پر نکاح، طلاق اور وراثت کے مسائل لے کر حاضرہوتے۔ بعض اَوقات لوگ اپنی مرضی کے مطابق غلط بیانی کر کے فتوٰی لینے کی کوشش کرتے لیکن ان کو منہ کی کھانی پڑتی۔فتوٰی کے معاملہ میں اگر کبھی عدالت میں طلبی ہوئی تو کبھی جھجک محسوس نہ کی جہاں آپ سے خصوصا عائلی مسائل (نکاح ، طلاق) وراثت اورعہد جدید کے مسائل راہنمائی لی جاتی ۔ بھاول نگر میں عدالت میں طلبی ہوئی تو جج صاحب کو بہت اچھی طرح سے
[1] جواہر درذکرِ کبائر ازعبدالقادر حصاری نبوی (مرتب ڈاکٹر عبدالروٴف ظفر):ص مقدمہ محقق