کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 65
فتاویٰ ہذا کے مقدمہ میں آپ کے حالات زندگی درج کیے گئے ہیں۔اس مجموعہ فتاویٰ میں عبادات،عقائد ،نکاح ،طلاق ، قراءت خلف الامام ،عورت کی حکمرانی اورمسئلہ علم غیب سے متعلق مذکورہیں۔ یہ فتاویٰ مختصر آسان زبان میں ہے۔اس میں اکثر قرآن، حدیث، فقہ، اور مآخذثانویہ سے حوالے ذکر کیے ہیں۔ تاہم حوالے نامکمل ہیں۔ فتاویٰ جات پر حافظ محمد گوندلوی صاحب کے دستخط بھی موجود ہیں۔ 10۔ فتاویٰ قادریہ از مولانا عبدالقادرعارف حصاری رحمۃاللہ علیہ (۱۹۰۷ء۔۱۹۸۱ء) آپ کا پورا نام عبدالقادر بن محمد ادریس ہے۔ آپ کے دادا کا نام مولوی محمد مستقیم تھا۔ راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ تحصیل سرسہ ضلع حصار کے ایک بڑے گاؤں گنگا میں ۱۹۰۷ء میں پیدا ہوئے۔ اِبتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کرنے کے بعد آپ لکھوکے چلے گئے اوروہاں حضرت مولانا محمد علی لکھوی کے سامنے زانوئے تلمذطے کیا اورکچھ عرصہ منڈی صادق گنج ضلع بہاول نگر میں غزنوی خاندان کے ایک بزرگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر خدمتِ دین کے لیے اپنے ہی گاؤں میں تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری کیا۔ تقریر میں قرآن و حدیث کے حوالہ جات موتیوں کی طرح جڑے ہوتے تھے اور تاریخی واقعات تقریر کی زینت ہوتے، جبکہ برجستہ اور برمحل اَشعار فصاحت و بلاغت کے ساتھ مل کر سونے پر سہاگہ کا کام دیتے۔ تقریر دعوتِ فکر و عمل دیتی اور ذہنوں کی خشک کھیتیوں کے لیے آبیاری کا کام کرتی تھی۔ آپ طلبا میں تحریر و تقریر کا شوق ابھارنے کے لیے تقریری مقابلہ کراتے طلبا کو انعامات بھی دیتے۔ طلبا کوسمجھانے کا انداز بہت پیارا اور دلچسپ تھا۔ نماز کی بہت زیادہ تلقین فرمایا کرتے تھے۔ بے نماز کی نمازِ جنازہ نہ پڑھتے۔ اپنے حقیقی چچا محمد یعقوب کا جنازہ اس وجہ سے نہ پڑھا کہ وہ بے نماز تھا۔ آپ دینی معاملات میں اس قدر سخت ہونے کے باوجود انتہائی رحم دل تھے۔ انسانوں کے علاوہ جانوروں پر بھی رحم کی تلقین فرماتے، ایک دفعہ کسی رشتہ دار (چچا) نے ایک بلّی کو مار دیا۔ اس پر انہیں سخت خط لکھا۔ باہرلکھ دیا: ’’ظالم کے دروازے پر جائے۔‘‘ مکّہ مکرمہ میں کسی مسجد میں ایک مولوی صاحب کے ساتھ نماز پڑھی، دیکھا کہ پاجامہ ٹخنوں سے نیچے تھا۔ بعد از نماز فرمایا:فسد الوُضوء وفسدت الصّلوةُ وہ حیران ہوا تو