کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 6
ہے جس کا نتیجہ وہ انتہاپسندانہ اقدامات کی صورت میں دینے پر اس لئے مجبور ہیں کہ اُن کے پاس اپنے سے ظلم کے دفاع کا کوئی راستہ نہیں ہےاور باقی مسلمان بھی اُن کے بارے میں اپنی مدد ونصرت کی ذمہ داری سے غافل ہوکر، اُن کو مغربی میڈیا کا ہم نوا بنتے ہوئے بدترین تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس تیسرے کردار یعنی مظلوم سرحدی مسلمانوں کا تکفیر وبغاوت کا رویہ اختیار کرنا غلط اورغیرشرعی ہے، ایسے ہی اپنے ظالم مسلمان بھائیوں کے خلاف کسی بھی درجہ میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونا یا اُن کی تحسین کرنا حکمت ِدین کے تقاضوں کے بھی سراسر خلاف ہے۔اس منظرنامے کے چوتھے کردار علماے پاکستان جو غیرمتاثرہ پاکستانیوں کی ذہن سازی کرتے اور ان مظلوم مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے ذمہ دار ہیں، کا جہاں تک تعلق ہے تو علماے پاکستان کا یہ شرعی فرض ہے کہ اس ظلم کے خاتمے کے جائز راستے تلاش کریں، اس پر مجالس ومباحثے منعقد کریں اور اپنے مظلوم بھائیوں کی اپنے علم وعمل سے بھرپور مدد اور سرپرستی کریں،اس سے قبل کہ یہ ظلم اُن کو بھی اپنے گھیرے میں لے لے اور ان پر ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے اور راستہ سجھانے والا کوئی نہ ہو، اس ظلم کے گرد اپنا گھیرا کس دیں۔چونکہ علماے اسلام اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کررہے، اس بنا پر مظلوم مسلمانوں کو اُن سے شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اُن علما کو بعض اوقات مرجئہ قرار دے کر، ان سے اظہارِ ناراضگی کرتے ہیں۔ چوتھے کردار: علماے کرام کی کوتاہی اور یہ بدعملی کہ وہ کسی متبادل جائز راستہ کی جدوجہد نہیں کررہے اورعوام الناس کی ذہن سازی نہیں کررہے، کا یہ نتیجہ کہ اُن کو مرجئہ بنادیا جائے،بھی درست نہیں ۔ کیونکہ اِرجا کا تعلق دراصل نظریے سے ہے، نہ کہ عملی کوتاہی سے۔ اگر کوئی مسلمان بہترین اعمال تو کرتا ہو لیکن عقیدتاً عمل بالارکان کو ایمان کا رکن ثالث نہ سمجھتا ہو تو وہ مرجئی ہے، دوسری طرف جو مسلمان عمل کو ایمان کا رکن ثالث تو سمجھتا ہے لیکن شدید عملی کوتاہی کا مرتکب ہے تو وہ خارج از ایمان تو نہیں اورعقیدتاً اہل السنہ والجماعہ میں ہی شامل ہے لیکن وہ ناقص الایمان اور