کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 59
تاثیر ہے۔اَنداز تحریر کی یہ خوبی قابل ذکر ہے کہ خاصے چبھتے اور اختلافی مسائل کو زیرِبحث لاتے ہوئے قاری کوناگواریت کا احساس نہیں ہونے دیتے۔معاصر ین علما اور فضلاء اور مقتدر اصحاب پر تعاقب کرتے ہیں اور کہنے کی کوئی بات نہیں چھوڑتے کہیں کہیں چُٹکیاں بھی لیتے ہیں۔تاہم اپنے مقام رفیع سے نیچے اُترتے نظرآتے ہیں نہ ان کے ادب واحترام کے منافی کوئی چیز نوک قلم پر لاتے ہیں۔[1] فتویٰ میں سب سے پہلے قرآنی آیات سے اِستدلال کرتے ہیں جیسے دیہات میں جمعہ کے متعلق فتویٰ میں اس آیت: ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَيْعَ1 ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۹﴾[2] سے استدلال کیا ہے۔ [3] موجودہ مجموعہ میں کوئی ایک آدھ فتویٰ کو چھوڑ کر کوئی بھی فتویٰ بغیراَحادیث کے استدلال سے نہیں دیا گیا ہے۔ بلکہ ایک سوال کے جواب میں کئی کئی روایات ذکر کی گئی ہیں بعدازاں مذاہبِ ائمہ محدثین اور شارحین کے تشریحات کو بطور استشہاد پیش کیا ہے۔ مثلاً عائلی قوانین کی بابت تفصیلی بحث کرتے ہؤئے ابن کثیر کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت تین اسانید سے بیان فرمائی ہے۔ پھر حافظ ابن جریر طبری کے اقوال سے استشہاد کرتے ہیں۔ بعد ازاں مستدرک حاکم کے حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں علیحدہ علیحدہ حوالوں سے بیان فرماتے ہیں۔ [4] بعض مسائل میں ائمہ فقہا کی آرا تفصیلاً بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات فقہاے احناف کے مابین اختلاف کوواضح کرتے ہیں۔[5] اسی طرح ضرورت کے مطابق لغوی بحث بھی کرتے ہیں جیسے’قریہ‘،’مدینہ‘ اور’مصر‘ نیز اعفا، ارخا، ایفا، ارجا اور توقیر وغیرہ [6] مولانا اپنے فتاویٰ میں صحاح ستہ، فتح الباری، ابن کثیر، مسعودی، ابن خلدون، ابن حزم، ابن جریر،امام ابن قیم، امام شوکانی، امام نووی، نواب صدیق حسن خاں، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہم
[1] ایضاً:ص۴ [2] الجمعہ: ۹ [3] فتاویٰ سلفیہ : ص۷۵ [4] ایضاً:ص۶۱ [5] ایضاً:ص۷۷،۸۵ [6] ایضاً:ص ۸۵، ۸۷، ۱۰۳