کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 57
خوشنویس تھے۔ چنانچہ سنن ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی کی چاروں جلدیں اور قرآن مجید مترجم مولانا وحید الزمان مطبوعہ لاہور ان کی خوشنویسی کا شاہکارہیں۔ انہوں نے اپنے اس اَکلوتے فرزندِارجمند کو ہوش سنبھالتے ہی اُستاد پنجاب حافظ الحدیث مولاناحافظ عبدالمنان صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدث وزیرآباد ی کی خدمت میں دینی تعلیم کےلیے بھیج دیا۔آپ نے جملہ علوم وفنون،قرآن وحدیث،فقہ اصولِ فقہ،عربی اَدب،منطق،فلسفہ،عقائد وکلام وغیرہ حضرت حافظ صاحب سے حاصل کیے بعد اَزاں اَمرتسراوردہلی کے مشہور اَساتذہ سے بھی کسبِ فیض کیا۔ آخر میں مولانا حافظ محمد اِبراہیم میر سیالکوٹی کی خدمت میں حاضر ہوکر مزید علم حاصل کیا۔ آپ نے ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا ثناء اللہ اَمرتسری کی تجویز پرگوجرانوالہ میں مسند تدریس وخطابت سنبھالی ۔ گوجرانوالہ شہر میں بالخصوص اور علاقہ گوجرانوالہ میں بالعموم توحید وسنت کا نور آپ کے دم قدم سے پھیلا۔آپ کو ’علم حدیث‘میں تبحر حاصل تھا۔چنانچہ آپ کے اِنتقال پر ماہ نامہ ’الرحیم‘نے لکھا کہ آپ واقعی’شیخ الحدیث‘تھے۔ آپ اَکابرعلماے اہل حدیث کی جملہ صفات کے حامل اور ایک مثالی شخصیت تھے۔ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری کاورع اور تقویٰ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری کی تواضع مولاناعبدالواحدغزنوی کا ذوق قرآن فہمی،مولانا عبدالعزیزرحیم آبادی کی انگریزدشمنی مولانا ثناء اللہ امرتسری کا ذوق تالیف، مولانامحمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا جوہرخطاب،مولانا عبدالقادر قصوری کی متانت اور عمق فکر،مولاناحافظ عبداللہ روپڑیکا ملکہ افتاء،مولانامحمد داوٴد غزنوی کی معاملہ فہمی اور وُسعتِ قلبی…یہ صفات ایک مولانااسماعیل میں موجود تھیں۔[1] جامع مسجد اہل حدیث گوجرانوالہ میں خطیب اور مدرسہ محمدیہ کے’شیخ الحدیث‘رہے۔ تقریباًپچاس برس شہر میں درس قرآن وحدیث دیا۔ہزاروں لوگوں کو قرآنِ پاک کا ترجمہ مع ضروری تفسیر کے پڑھایا۔ ۲۰ ذیقعدہ ۱۳۸۷ھ/ ۲۰فروری۱۹۶۸ء بروز منگل چار بجے بعد نماز عصر انتقال فرماگئے۔ جنازہ میں لوگوں کابے پناہ ہجوم تھا کہ بقول شورش کاشمیری ’’ایسا جنازہ تو بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوا۔‘‘[2]
[1] تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کا تجدیدی مساعی فکر از محمداسماعیل سلفی :ص۳۲ ،مقدمہ ازمحمد حنیف یزدانی [2] ایضاً:ص۳۳