کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 56
محمد صلی اللہ علیہ وسلم لایرون شیئًا من الأعمال ترکه کفر غیر الصلوٰة اور امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے کہ تارک الصلوٰة کافر ہوجاتا ہے۔پس ایسا آدمی اگر توبہ کرے (اور مرنے سے قبل نماز کا پابند ہوجائے) تو اس کی جنازہ کی نماز جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔ والله تعالى أعلم وعلمه أتم وأکمل[1] اور مختلف کتبِ فقہ اور فتاویٰ سے بھی اِستدلال و استشہاد کرتے ہیں۔ آپ سے جب پوچھا گیا : ’’بچہ کے عقیقہ میں بھیڑ بکری ہی ذبح کرنی چاہیے یا گائے بیل بھی جائز ہے جواب مدلل ہو اور بکروں کی جگہ ایک بکرا اور ایک بیل جائز ہے یا نہیں؟’’سائل مولانا خضر الدین صاحب ازکھولاہاٹی رنگپور‘‘ اس کے جواب میں رقمطراز ہیں: ’’عقیقہ میں شرعاًبھیڑ،بکری،اونٹ ،گائے جائز ہے۔ ہرشخص حسبِ توفیق وحسبِ حیثیت اس اَمر مسنون کو اداکرسکتا ہے۔ دوبکروں کی بجائے ایک بکرا اور ایک گائے یا بیل کی ممانعت پر بھی کوئی دلیل نہیں۔‘‘ پھر نیل الاوطار اورفتح الباری کے مباحث نقل کرنے کے بعد بطور استشہاد لکھتے ہیں۔’’نیز مولوی ابوالقاسم محمد عبدالغنی اپنی کتاب تذکرة الحسنیٰ کے ص۱۸۰ پر تحریر کرتے ہیں کہ (عقیقہ میں) گائے اور شتر بھی جائزہے اور ساتواں حصہ گائے کا مثل ایک بکری کے ہے۔ اگر مثلاً تین بیٹے اور ایک بیٹی کا عقیقہ ساتھ کرنا چاہیں تو ایک شتر یا گائے کفایت کرتا ہے۔کیونکہ تین بیٹے کے چھ جانور اور ایک بیٹی کا ایک تو اَب سات ہوئے اور ایک شتر یا گائے حکم سات بکری کا رکھتا ہے انتہیٰ۔نیز مولوی محمود حسن صاحب حنفی دیوبندی کے شاگرد نے اپنے رسالہ’فتاویٰ محمدی‘ کے ص۵۰میں لکھا ہے اگر ایک گائے میں چھ شخص قربانی کی نیت سے شریک ہوں اور ساتواں شخص اپنے بچے کے عقیقہ کے لیے شریک ہوجائے تو جائز ہے۔“[2] ۴۔فتاویٰ سلفیہ از مولانا محمداسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۰۱ء۔۱۹۶۸ء) مولانا محمداسماعیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ کے قریب ایک گاوٴں’ڈھونے کی‘ میں ۱۳۱۹ھ/۱۹۰۱ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار مولانا محمدابراہیم اعلیٰ درجہ کے
[1] ایضاً:۱؍۱۴۷ [2] فتاویٰ ستاریہ،۱؍۱۷۶-۱۷۷