کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 55
وسعی علمی کے بعد ۲۹اگست۱۹۶۶ء کو کراچی میں وفات پائی۔ [1]
مولانا عبدالستار دہلوی کے فتاویٰ کا یہ مجموعہ آپ کے صاحبزادے مولانا عبدالغفار سلفی نے مرتب کیا ہے۔ جو کہ آپ سے پوچھے گئے سوالات اور رسائل وجرائد میں شائع شدہ فتاویٰ پرمشتمل ہے۔ اس فتاویٰ کی کوئی خاص ترتیب نہیں ہے۔آغازِ مسئلہ رضاعت اورمسئلہ زکوٰة پر اختتام ہوتاہے۔ اس میں آپ کے صاجزادے مولاناعبدالغفاراور دیگر علما کے فتاویٰ بھی شامل ہیں۔
اس فتاویٰ میں شعبہ ہائے زندگی کے متعلق مختلف مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بلاترتیب فتاویٰ کو جمع کیا گیا ہے۔ مسائل کو دلیل دیے بغیر مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے۔اکثر فتاویٰ عمومی نوعیت کے شخصی مسائل پر مشتمل ہیں۔صرف فروعی اختلافات کے مسائل کے متعلق جوابات مدلل دئیے ہیں اور عقیدہ توحید کے متعلق جوابات مفصل ہیں۔قرآن وحدیث سے سب سے زیادہ دلائل دیے گئے ہیں۔جبکہ کتب فقہ سے دلائل بہت کم ہیں۔
مسائل کی وضاحت کے لیے زیادہ سے زیادہ قرآن وحدیث سے دلائل پیش کئے ہیں۔مثلا ترکہ کے بارے سوال پر کہتے ہیں:
’’ہندہ کا ترکہ ۲۴حصوں پر منقسم ہو کر بدلیل آیت قرآنی وفیصلہ آسمانی ﴿فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ﴾ وایضاً ﴿ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ﴾ کے خاوند کو چوتھائی یعنی۲۴حصوں میں سے ۶حصے اور والدین میں سے ہر واحد کے لیے سُدس یعنی چار چار حصے اور باقی دس حصے لڑکے کو ملیں گے۔ [2]
تارکِ نماز کے متعلق آپ یہ فتویٰ صادر کرتے ہیں:
’’میری تحقیق میں جس جگہ شارع نے کفر کا اطلاق اپنے حال پر رہنے دیا ہے وہاں اطلاق کفر کا کرنا صحیح ہے۔ بے نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہے۔ سنن نسائی جلد 1 صفحہ ۴۹ میں ہے: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( العهد الذي بیننا وبینهم الصلوٰة فمن ترکها فقد کفر)) دوسری روایت میں ہے قال: کان أصحاب
[1] اصحاب علم وفضل از الحسینی:ص۱۸۵
[2] فتاویٰ ستاریہ از حافظ عبدالستار دہلوی :۱؍۶۹۔ ۷۰