کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 54
دلیل پیش کرتے ہیں۔ 7. کسی اختلافی مسئلہ میں تحقیق سے مطمئن نہ ہوں تو اس کا اظہار کر دیتے ہیں۔ 8. مسئلہ کی صورت حال کومدلل اَنداز میں تفصیل سے واضح کرنے کے بعد آخر میں اَخذ شدہ نتیجہ کو بطورِ خلاصہ درج کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ غیبت کی حقیقت پر بحث کے آخر پر لکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ عیب والے کی یا دوسرے کی خیر خواہی کی نیت ہو تو اس صورت میں عیب کا ذکر غیبت نہیں ورنہ غیبت ہو گا۔[1] قرآن پاک کی تفاسیر میں سے تفسیر ابن کثیر، تفسیر کبیر، تفسیر خازن کے حوالہ جات بھی موجود ہیں۔ 9. فتاویٰ اہل حدیث میں ایمان، طہارت، عبادات، معاملات یعنی تجارت، نکاح اور طلاق وغیرہ سے متعلق فتاویٰ شامل کیے ہیں۔ ۳۔فتاویٰ ستاریہ از مولاناحافظ ابو محمدعبدالستاردہلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۹۰۵ء-۱۹۶۶ء) مولاناحافظ ابو محمدعبدالستاردہلوی ستمبر۱۳۲۳ھ/ ۱۹۰۵ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں قرآن کریم حفظ کیا پھر دیگر علوم اپنے والد سے حاصل کئے۔[2] تکمیل تعلیم کے بعد دہلی میں اپنے والد عبدالوھاب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ ’مدرسۃ الکتاب والسنۃ‘میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی تشریف لائے اور پرنس روڈ پر ’مدرسہ دارالسلام‘ قائم کرکے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ [3] آپ جماعت غرباءِ اہل حدیث کے اَمیر ثانی تھے۔ جماعت کے ترجمان مجلہ ’صحیفہ اہل حدیث‘ جو انڈیاسے چھپتا تھا تحریکِ پاکستان کی وجہ سے کچھ عرصہ بند رہا۔ کراچی آمد کے بعدصحیفہ اہل حدیث کا اِجراء(ثانی) بھی کیا۔ مولاناکثیر الدرس عالم تھے، ان سے تلامذہ کی ایک کثیر جماعت نے استفادہ کیا۔اپنی تمام تر مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کی طرف بھی عنان توجہ مبذول فرمائی۔ ان کی گراں قدرتصانیف،تفسیرستاری، نصرة الباری شرح صحیح بخاری اور فتاویٰ ستاریہ بہت اَہم ہیں۔آپ نے ایک طویل عرصہ کی جہدِ دینی
[1] فتاویٰ اہلحدیث از حافظ عبداللہ روپڑی: ص۱؍۱۶۷ [2] اصحاب علم وفضل از الحسینی :ص۱۸۵ [3] ایضًا