کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 5
کہ سعودی حکمرانوں نے دنیا بھر کے مسلم ممالک میں نہ صرف سب سے زیادہ اسلام کو اپنے وطن میں نافذکررکھا ہے، اسی خالص اسلام’سلفیت‘پر وہ مفتخر ومستقیم ہیں بلکہ عملاً اُن کے ہاں غیرمسلموں سے پائی جانے والی قربت بھی ڈپلومیسی اور عالمی سیاست کا ایک تقاضا اور ضرورت ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ یہی سعودی حکومت ہے جو درحقیقت سعودی عرب کے اندر بلکہ دنیا بھر میں بھی نظری اور فکری طورپر اسلام کی سب سے بڑی محافظ وپشتیبان ہے۔ کیا یہ امر چشم کشا نہیں کہ عالمی سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کی بظاہر حلیف ریاستیں(امریکہ وسعودی عرب)نظریاتی طور پر اسلام وکفر کی نمائندہ وقائد ہونے کے ناطے ایک دوسرے کی عین نقیض ومتضاد کھڑی نظر آتی ہیں۔وہاں سے مجاہدین کے مطالبوں کے مطابق امریکی دستے نکل چکے ہیں، اور جس وقت یہ دستے وہاں موجود تھے تب بھی یہ پاک وافغان سرزمین کی طرح کھلم کھلّا دندناتے نہیں پھرتے تھے۔ سعودی حکمرانوں کی شخصی حامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ، اور نوجوانانِ اُمت کو اُن سے متنفر کرنا، دوسری طرف سعودی معاشرے کی خوبیوں کو نظرانداز کرنا دراصل ملتِ اسلامیہ کے دشمنوں کا طریقۂ واردات ہے۔ 4. تکفیر وخروج کے اس مزعومہ منظر نامے کے پانچ مختلف کردار ہیں۔ پہلے کردار’عالمی استعمار‘ کو ہم اصل مجرم سمجھتے ہیں جو اقتصادی ونظریاتی اہداف کے لئے ملت اسلامیہ کو آسان شکار سمجھ کر اس پر حملہ آور ہے۔اور پاکستان جیسے مسلم ممالک کے حکمران اُن کے مقاصد پورے کرکے ظالم کی مدد اور اپنی قوم و اسلام کے خلاف اقدامات کررہے ہیں۔ یہ حکمران ظالم کے مدد گار اور فاسق وظالم ہیں، لیکن اس کا نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ اُس سے یہ حکمران اسلام سے نکل کر کفر کے دائرے میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس لئے ایسے حکمرانوں کو ، جو اس منظرنامے کا دوسرا کردار ہیں، ہم بدترین ظالم قرار دیتے ہیں۔ ان پر کوئی واضح حکم عائد نہ کرنے کی بنیادی وجہ اُن کی طرف سے اپنے اقدامات کی متعدد تاویلات اور بظاہر اسلام کا دعویٰ ہے۔ جہاں تک تیسرا کردار مظلوم سرحدی مسلمان ہیں تو اُن کے ساتھ ملتِ اسلامیہ کی فرنٹ لائن ہونے کے ناطے سنگین زیادتی ہورہی