کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 48
آنے والے سالوں میں اُن کی خواہش یہ ہے کہ میدانِ جنگ سے دور رہ کر اپنے حامیوں کو اِس جنگ میں دھکیل دیا جائے۔
مستقبل کی جنگ میں حکمت ِعملی کے تحت جن خطوں سے خطرہ ہے،ادھر لاکھوں کی زمینی فوج اُتارنے کے بجائے چند ہزار فوجیوں پر مشتمل اڈّوں کے قیام کو ترجیح دی جائے گی اورعام فوج کے بجائے کمانڈو دستوں کے حجم میں اضافہ کیا جائے گا جبکہ حواری ممالک کی فوج کو لڑنے کے لیے استعمال کیاجائے گا۔یاد رہے کہ امریکہ اپنی فوج میں11 فیصدکٹوتی کا اعلان کرچکا ہے جو کہ جنگ کے ناقابل برداشت اخراجات سے بچنے کی ہی کوشش ہے۔
آج سے گیارہ سال قبل ’زمینی حقائق‘ کے ماہرین نے جو اندازے لگائے تھے، وہ کتنے غلط اور ایک اللہ پر ایمان رکھنے والے کے الفاظ کتنے سچے نکلے۔’’جو اللہ پر بھروسہ کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا۔‘‘
اس حادثہ کےتمام اسرار منکشف ہو چکے۔دلوں کے راز باہر نکل آئے ہیں ،اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہماری اکثریت اپنے ربّ کی خیانت کر رہی ہے۔وہ آج بھی مال(ڈالروپاؤنڈ) کے پہلے سے زیادہ حریص ہیں۔ان کے برعکس اپنے ایمان میں صادق اور سنتِ نبوی کا پیروکار اپنے ربّ کی حمدوثنا میں لگا ہوا ہے۔اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو بھی سچ جانا ہے اور ان تمام حوادث و واقعات کو بھی جو اس کے مالک وپروردگار کی طرف سے ظہور پذیر ہوں گئے۔اس حادثہ میں ایک ایسی واضح،کامیاب وکامران جماعت دین پر قائم ہو گئی ہےجسے مخالفت کرنے والے کی مخالفت اور کوئی رسوائی یومِ قیامت تک ضرر نہ پہنچا سکے گی۔آج سے گیارہ سال قبل لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے، بقول امام ابن تیمیہ:
’’یہاں ہم انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں: ۱) ایک گروہ جو کہ دین کی نصرت و حمایت میں کوشاں ہے۔۲) دوسرا گروہ جو کہ دین کو رسوا کرنے پر تلا ہوا ہے۔۳) تیسرا گروہ جو دین اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (تاریخ دعوت و عزیمت)
صرف چند سال ہی گزرے ہیں ساری زندگی نہیں،فیصلہ ابھی بھی ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ اپناوزن ان تین گروہوں میں سے کس کے پلڑے میں ڈالنا ہے!! [بشکریہ مجلّہ ایقاظ]