کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 47
اندازے کے مطابق 238ملین ڈالر بنتی ہے۔ طالبان کے اعداد شمار کے مطابق اموات کی تعداد اختصار کے پیش نظر صرف دو سال کی رپورٹس کے مطابق ٭ 2010ء میں صلیبی ہلاکتوں کی تعداد 13845 ٭ 2011ء میں صلیبی ہلاکتوں کی تعداد 11656 یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح اتحادی فوج کے فراہم کردہ اعداد شمار ماننے میں نہیں آتے، وہا ں مجاہدین کے اعداد شمار بھی حقیقت کی پوری عکاسی نہیں کرتے۔شاید یہ اسی میڈیا وار کا حصہ ہے جودو برسرپیکار دشمنوں کے درمیان جاری رہتی ہےلیکن ایک بات یقینی ہے کہ صلیبی افواج کو اس جنگ میں نا قابل تلافی جانی، مالی اور ذہنی نقصان کا سامنا ہے۔ اس کی معیشت پر ہونے والے اثرات اس کے علاوہ ہیں جس میں صرف معاشی انڈیکٹیرز (indicators)کی بات کی جائے،تو 2011ء میں امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ تاریخ میں پہلی دفعہ AAAسے AA پر آ چکی ہےاورامریکہ کا اندرونی قرضہ14.3ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہےجو اس کی کل جی ڈی پی کے برابر ہے۔یوں رقم کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن گیا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ کا کل قرضہ (اندرونی و بیرونی) 114.32کھرب ڈالر ہے۔امریکہ میں امیر اور غریب کا فرق بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے،2011ءمیں تقریباً دس لاکھ کاروبار اور کارخانے کام نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق ایک کروڑ اڑتیس لاکھ اور غیر سرکاری اعداد شما ر کے مطابق ڈھائی کروڑ امریکی بے روزگار ہیں۔ امریکی حکومت نے بیرونِ ممالک سے اربوں ڈالر قرضے لیے تھے تاکہ اپنے تجارتی اور کاروباری اداروں کو سبسڈی فراہم کر کے بند ہونے سے بچایا جا سکے۔اس پالیسی کے سب سے بڑے مخالف خود عوام ہیں کیونکہ اس سے فائدہ اُٹھانے والے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔اس کا مشاہدہ ہم Capture Wall Street کی تحریک میں کر چکے ہیں۔یہ غلط فہمی نہ رہے کہ یہ نقصانات جنگ کے علاوہ کسی اور وجہ سے معرضِ وجود میں آئے ہیں،یہ اثرات اسی جنگ کا نتیجہ ہیں جس کی گواہی خود امریکی ماہرین معاشیات دے چکے ہیں، اسی وجہ سے