کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 44
ہماری بیٹی اور بہن اُٹھا لی جاتی ہے،بگرام اور امریکی جیلوں میں اس کی آبروریزی کے بعد،اپنی عزت کے تحفظ میں گولی چلانے پر86 سال کے لیے جیل میں گلنے سڑنے کے لیے پھینک دی جاتی ہے اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔آج ایک قوم برابری کی سطح پر قطر میں مذاکرات کرتی ہے اور ہمارے ایوانوں میں قصرسفید سے جاری ہونے والے حکم نامے کا انتظار کیا جا تا ہے۔قندھار کا ایک فاقہ کش اپنے ربّ کی سرزمیں پر عزت کے ساتھ کہیں رہتا ہے،مغرب تا مشرق اہل ایمان اس کے ساتھ عہدِ وفاداری استوار کرتے ہیں اور ہم مستقبل کی تاریخ میں میر جعفر و صادق کے ساتھ لکھے جانے والے’شریفوں اور زرداریوں‘ کے ساتھ اپنا سر پھوڑ رہے ہیں۔
گیارہ سال پہلے جس رعونت آمیز لہجے نے صلیبی جنگ کی دھمکی دی تھی،وہ آج کچھ فاقہ کشوں کے وجود سے لرزہ براندام ہے اور ہم ’ ڈُومور‘ کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔’زمینی حقائق‘کے ماہرین آج انصاف کے خوف سے خود زمین ہی بدل لیتے ہیں۔اہل نظر ایک توجہ ادھر بھی،سوال یہ نہیں کہ مدد کون کر رہا ہے،کہیں یہ تو نہیں ،کہیں وہ تو نہیں، سوال تو یہ ہے کہ کھڑا کون رہا!!... اپاچی ،چینوک،ہیل فائر کے سامنے کس نے صرف ربّ العالمین پر توکل کیا؟ کس کا جذبہ لہو بن کر بدنوں میں سرایت کر گیا؟ ذرا مادی اسباب سے نظر ہٹا کر الٰہی امداد پر بھی تو دھیان دیجیے...بدر، اُحد،احزاب کے معرکے تو تمہاری نظر میں تاریخ ٹھہرے لیکن شاہی کوٹ،مرجاہ،خوست،کنڑ،قندھار میں ہونے والے واقعات تو تمہارے سامنے رونما ہو رہے ہیں!! اگر عقل اور نظر مختلف سازشوں کو سمجھتے سمجھتے خود سازشی نہ ہو گئی ہو تو پھر غور کرو کہ تمہارے ارد گرد ’اللہ کی سنت‘ رونما ہو رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گئے۔اگر ہو سکے تو خود انہی کی گواہیوں پر نظر ڈال لو:
4. 22دسمبر 2009ء: جنرل مائیکل ٹی فلنGeneral Michael T filin افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی کا اعلیٰ آفیسر:
’’2010ء میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔یہ حملے 2007ء سے ہی300 فیصدبڑھ چکے ہیں اور 2008ء میں ان میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
5. 2009ء:نیٹو کی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ:
’’طالبان کے پاس تقریباً 25000حوصلہ مند جنگجو موجود ہیں۔تقریباً اتنے ہی جتنے