کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 42
کرے گا۔
2. 15 نومبر 2001ء :.... BBC ریڈیو کی پشتو سروس کا نمائندہ:
ملّا عمر: تم اور تمہارے غلام ذرائع ابلاغ نے یہ سوال پیدا کیا ہے،وگرنہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کا تعلق ایک عظیم مقصد سے ہے اور وہ ہے:’امریکہ کی تباہی‘ اور دوسری طرف اس کا تعلق ’’طالبان کی صفوں میں سے منافقین کی صفائی سے ہے۔‘‘
ملا عمر: یہ منصوبہ خود بخود آگے بڑھ رہا ہے اور ان شاء اللہ یہ ہو کر رہے گا۔اگرچہ یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو کہ انسانی قوت و عقل سے ماورا ہے لیکن اگر اللہ کی مدد شامل حال رہی تو یہ بہت تھوڑے وقت میں ہو جاے گا،اس پیشین گوئی کو یاد رکھنا...!!
3. 7 اکتوبر 2001ء:... طاغوتِ اعظم امریکہ صلیبی جنگ کا نعرہ بلند کرتا ہوا سرزمین جہاد پر حملہ آور ہوتا ہے،افغانستان کی گلیوں میں موت کا رقص شروع،آوازیں بند اور لہجے گنگ،زمین کارپٹ بمباری سے ہلنے لگتی ہے۔ کروز اور ڈیزی کٹر ہواؤں کا سینہ یو ں چیرنے لگتے ہیں جیسے ہزاروں بگولے یک دم چلنے لگے ہوں ۔ہیل فائر رات کے اندھیرے میں روشنی کا خنجر گھونپ دیتی ہے۔سٹیلائٹ،جاسوسی کیمرے،نائٹ وژن، ائرسرویلنس ،سپیشل فورسز پہاڑوں اور وادیوں کی خاک یوں چھاننے لگتے ہیں جیسے قارون کا خزانہ تلاش کر رہے ہوں۔کیا حواری ،کیا مداری سب ہی خوف سے کانپ اٹھتے ہیں۔ڈیزی کٹر کی بارش تورا بورا کی پہاڑیوں پر ہوتی ہےلیکن گھن گرج کا اثر سینکڑوں میل دور بیٹھے حواریوں کے دل پر ہوتا ہے۔خون تو قلعہ جنگی کے کنٹینروں میں بہتا ہے اور لرزہ کسی اور قوم پر طاری ہوتا ہے۔اپاچی،چینوک،کوبرا کمال مہارت کا مظاہرہ تو کوہ ہندوکش کے پہاڑوں میں کرتے ہیں لیکن رعب ’زمینی حقائق‘کے خوشہ چینوں پر طاری ہو جاتا ہے۔تجزیات ،اخبارات،کالمز، مذاکرات، تحقیقات،نظریات، فتاویٰ جات یہاں تک کہ’دینیات‘ کا بھی تبصرہ یہی ٹھہرتا ہے کہ ’’ملک بچ گیا،وطن کی خیر...!‘‘ فاقہ کش،جاہل،دورِ جدید سے نابلد،جدید علوم و فنون سے بے علم،عقل سے