کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 4
قرار دیا جاتا ہے تو اس اساس پر اپنی دعو ت کو مستحکم کرنے والے غلطی پر ہیں۔ جب ہلاکت وبربریت کا شکار لوگ اپنے دفاع، انتقام اور غصّے کے اظہار کے لئے میدان میں نکل آتے ہیں تواُن کی مزاحمت کو خروج سے تعبیر کرنا ، امریکہ ومغرب نواز اداروں کا کارنامہ ہے تاکہ اس طرح خروج کے بارے شریعتِ اسلامیہ میں موجود سخت احکام وشرائط کا اُنہیں مخاطب بنا کر آخر کار شریعت ِاسلامیہ کی تائید سے محروم کیا جائے۔گویا یہ موقف اور اس کا دفاع دونوں ہی خلطِ مبحث اور فکری ڈپلومیسی کا شاخسانہ ہیں جس کو غیروں نے بلاوجہ ہم پر ٹھونس دیا ہے۔ 2. جس طرح ہم جارحانہ مزاحمت کو غلط سمجھتے ہوئے بھی اُن لوگوں سے دلی ہمدردی رکھتے اور ان کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں جو عالمی طاقتوں کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں، اسی طرح اپنے ان پاکستانی بھائیوں سے بھی ہم دلی ہمدردی رکھتے ہیں جو امریکی جارحیت کا شکار ہونے والوں کے جوابی غم وغصہ کا شکار ہوئے ہیں۔بعض لوگوں نے سیاسی تکفیر کا جوسلسلہ شروع کیا ہے، تو تکفیر کی یہ سیاسی حکمتِ عملی دراصل ظلم وستم کا ردّعمل ہی ہے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کا شکار ہونے کی وجہ سے ہمارے تکفیری بھائی مظلوم ومجبور ہیں، چنانچہ ہم اُن کی ہمدردی اور مظلومیت کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کے موقف کو غلط سمجھتے اور ان پر ہونے والے استعماری مظالم کے مداوے کی مؤثر تدبیر واقدام کے لئے کوشاں ہیں۔ 3. یہ صورتِ حال ہر ملک کے لحاظ سے مختلف ہے۔ پاکستان وافغانستان میں یہ ظلم وستم انتہا درجے پر پہنچا ہوا ہے جبکہ سعودی عرب میں تکفیر کا منہج اختیار کرنے والے ہمدردی کے مستحق بھی نہیں۔سعودی عرب میں جو لوگ اس غلط منہاج کے پیرو ہیں، اُنہیں حکمرانوں میں پائی جانے والی بعض کوتاہیوں پر صبر کرنا اور حکمت وموعظہ حسنہ کے ساتھ اُن کی اصلاح کی مؤدبانہ جستجو کرنا چاہئے۔ اسلام کی رو سے حکمران کے شخصی کردار سے اُس کا وظیفہ حکومت یعنی کارکردگی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔اور یہ مسلّمہ حقیقت ہے