کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 39
میں تفصیلی قوانین موجود ہیں تو کیونکر ہم اسلام کو چھوڑ کر غیر ملکی قوانین کو اپنانے پر راضی ہو جائیں؟‘‘ [1] سوال:بعض لوگ اس پر تعجّب کرتے ہیں کہ حزب النوراچانک کہاں سے آگئی ہے، انقلاب سے پہلے یہ لوگ کہاں تھے؟ جواب:ہم لوگ انقلاب سے پہلے بھی لوگوں کے درمیان اِنہی شہروں اور محلوں میں رہائش پذیر تھے۔ ان دنوں ہم دعوتِ دین،لوگوں کی تربیت اور دیگر رفاہِ عامہ کے کاموں میں مشغول تھے۔نہ صرف انقلاب سےپہلے بلکہ یہ کام ہم دورانِ انقلاب بھی سر انجام دیتے رہے۔اس کے علاوہ انقلاب کےآغاز سے لے کر اختتام تک سلفی نوجوانوں نے اس جدو جہد میں فعّال کردار ادا کیا ۔خصوصاً لوگوں کو سیکورٹی اور تحفظ فرہم کرنے اورشرکاے انقلاب کو کھانے پینے کی اشیا مہیا کرنے میں اُن کا کردار مثالی تھا۔ سوال :آپ لوگ تو عمل سیاست کو ایک جرم خیال کرتے تھے ، اب پوری طاقت سے اس میں کیوں مشغول ہو گئے؟ جواب: سیاست کے میدان میں دراصل نظریہ اور اُس کا اطلاق دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔اُصولی اور نظریاتی طورپر ہم ہمیشہ سے بہترین منہج(سیاست شرعیہ )کے ہی حامل ہیں جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور دورِ خلافت سے لیا گیا ہے ،تاہم تر جیحی مفاسد و درپیش مصالح کے مطابق اجتہاد کا میدان کافی وسیع ہے۔ سوال:عوامی مجالس اکثر کی نظر میں کفریہ مجالس تھیں کیونکہ وہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی تھیں، اب اُن میں کیا تبدیلی ہوئی ہے؟ جواب: 1996 ء میں عدالت کی طرف سے ایک مشہور فیصلہ سامنے آیا جس میں قرار دیا گیا تھا کہ مصری آئین کا آرٹیکل نمبر 2 تمام قوانین پر غالب ہو گایعنی وہ تمام قوانین جو
[1] اس حوالے سے مزيد تفصيلات كے لئے ملاحظہ کیجیے: ڈاکٹر عمر عبدالعزیز کی کتاب ’سماحۃ الاسلام‘