کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 32
جواب:’ادراج ‘یعنی کسی حدیث کے متن میں اپنی طرف سے جان بوجھ کر کچھ اضافہ کر دینا حرام ہے لیکن ادراج کی ایک قسم ایسی ہے جو جائز ہے اور وہ یہ کہ کوئی راوی احادیث کے غریب الفاظ کی تشریح میں کچھ الفاظ اس طرح بیان کرے کہ وہ حدیث کا حصہ معلوم ہوں ۔ امام زہری کے ادراج کی نوعیت بھی یہی ہے۔امام زہری رحمۃاللہ علیہ کی طرف جس ادراج کی نسبت ثابت ہے، وہ ایسا ادراج ہے جسے جائز قرار دیا گیا ہے یعنی حدیث کے غریب الفاظ کی شرح کرنا جیساکہ اما م سیوطی کی درج ذیل عبارت سے واضح ہو رہا ہے،لکھتے ہیں :
وعندي ما أُدرج لتفسیر غریب لا یمنع ولذٰلك فعله الزهري وغیر واحد من الأئمة[1]
’’اور میرے نزدیک کسی غریب الفاظ کی تشریح کے لیے جو ادراج کیا جائے تو وہ ممنوع نہیں ہے جیسا کہ امام زہری اور دوسرے ائمہ حدیث سے مروی ہے ۔‘‘
سوال نمبر3:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ’’ایسا بدعتی جس کی بدعت شرک تک نہ پہنچی ہو،اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔‘‘ اس سے کیا مراد ہے؟
جواب:ایسی کسی حدیث کاہمیں علم نہیں ہے اگر آپ کے پاس اس کا کوئی حوالہ ہو تو میسر کریں،آپ کے حوالہ دینے پر جواب ارسال کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں بعض فقہا کا قول’عقیدہ طحاویہ‘ میں بیان ہوا ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ با جماعت نماز کی اہمیت زیادہ ہے اور کسی امام کے فاسق، فاجر یا بدعتی ہونے کی وجہ سے اُس کے پیچھے نماز کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ امام اسی کو بنانا چاہیے جو صحیح العقیدہ ، متقی ، پرہیزگار، عالم دین اور قاری قرآن ہو۔لیکن اگر کوئی امام عالم دین یا قاری قرآن یا متقی یا صحیح العقیدہ نہ ہو یعنی بدعتی ہو تو اس صورت میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد تلاش [2]کی جائے ،بصورتِ دیگر ایسے بدعتی امام کے پیچھے جو اپنی بدعت کا داعی ہو، نماز پڑھنے کے بجائے تنہا نماز پڑھنا اولیٰ ہے۔واللہ اعلم
[1] تدریب الراوی : 1/ 231
[2] مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:كتاب’مقالاتِ تربیت‘مقالہ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ : ص تا ؟؟؟؟