کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 3
ساتھ پیش کردیا گیا ہے۔حنفی مکتبِ فکر کے ترجمان اس مجلّہ کے بارے میں بعض حنفی اہل علم ودانش کا یہ تبصرہ بھی پڑھنے میں آیا ہے کہ ’الشریعہ‘ کے اس شمارے میں مرزا قادیانی کی دہائیوں بھر کی خلافِ جہاد کاوشوں کو نئے پیراہن میں مرتب کرکے، اس خاص اشاعت کے ذریعے ازسرنو قادیانی نظریات کی منظم ترجمانی کی جارہی ہے۔مولانا سرفراز صفدر کے فرزندِ گرامی مولانا زاہد الراشدی اور ان کے بیٹے جناب عمار ناصر خاں کے زیر ادارت شائع ہونے والے مجلّہ الشریعہ کے مضامین پرکڑی تنقید بھی اسی خانوادہ کے دوسرے مجلّے ماہنامہ’صفدر‘کے اوراق میں شائع ہوئی ہے۔مستقبل قریب میں بھی مجلّہ الشریعہ کے اس شمارے اور پیش نظر موضوع کے متعدد پہلؤوں کو زیر بحث لایا جاتا رہے گا۔ راقم نے دو ماہ قبل اس حوالے سے تفصیلی مضمون تحریر کیا تھا جس میں اسی موضوع پر منعقد ہونے والی ایک مجلس کی رپورٹ پیش کی گئی تھی، اس مضمون کو بعض معاصر رسائل نے دوبارہ شائع کرکے اپنے حلقہ قارئین تک بھی پہنچایا ہے۔ اس کے بعد بعض حضرات کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ آپ کا اس ضمن میں بالاختصار موقف کیاہے،اس کی وضاحت فرما دیں۔ چنانچہ ہمارے موقف کا خلاصہ نکات کی صورت میں حسب ِذیل ہے: 1. ہم پاکستان کے موجودہ حالات میں سیاسی تکفیر وخروج کے قائل نہیں ہیں۔تکفیر نہ تو اسلام کا کوئی منہاجِ دعوت ہے اور نہ ہی کوئی اُسلوبِِ جہاد۔ بلکہ یہ تو مظلوموں کا ایک سیاسی آلہ ہے اپنی مزاحمت کو تقویت دینے کا، یا اپنی سیاسی دعوت میں تاثیر پیدا کرنے کی ایک کوشش ہےجیسا کہ علامہ محمد ناصر الدین البانی کا یہ موقف مشہور ہے کہ توحید حاکمیت وغیرہ کی بحثیں شریعت سے بڑھ کرپیش نظر سیاسی مصالح ومقاصد کا تقاضا ہیں۔ جہاں تک خروج کی بات ہے تو یہ خلافت ِاسلامیہ کا ایک سیاسی تصور ہے جس کی اُصولاً مشروعیت کے بعداس سلسلے میں بہت سی شرائط اورحکمتیں پیش نظر رکھنا ہوتی ہیں، تاہم پاکستان میں اس وقت خروج کا بھی کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں اگر اسلامی حکومت ہوگی تو اُسی صورت میں خروج کا سوال پیدا ہوگا۔ یوں بھی مزاحمت وانتقام لینے والوں نے اپنی سرگرمیوں کو کبھی خروج سے تعبیر ہی نہیں کیا۔غرض موجودہ حالات میں تکفیر وخروج دونوں ہی غلط منہاج ہیں، اور جن لوگوں کو اِس کا داعی