کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 27
بھائیو!مغرب کی تم سے یہ دشمنی ، دین کی دشمنی ہے، اس دشمنی کی اور کوئی دوسری وجہ نہیں ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ عراقی عوام چھ سال سے حصار بندی کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ آخر ان کمزور ناتواں اور مسکین عوام کا کیا گناہ ہے اُنہیں اس کی قیمت کیوں چکانا پڑرہی ہے؟ اگر ان کا کوئی گناہ ہے تو یہ ہے کہ وہ لوگ مسلمان اور کلمہ گو ہیں!! ہمیں اجازت دیں کہ اس موقعہ پرہم صراحت کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ اس جنگی دوڑ میں صدام اور اس کی پارٹی کا کچھ نہیں بگڑے گا اور نہ ہی صدام اور اس کی پارٹی کو کسی نقصان کی کوئی پرواہ ہے، اُنہیں تو اپنا اُلّو سیدھا کرنے سے غرض ہے۔ مغربی اتحادی ممالک کا خیال بلکہ ان کا متفقہ طور پر پروپیگنڈا ہے کہ عراق اقوامِ متحدہ کی قرار داد پر عمل درآمد کرنا نہیں چاہتا ۔ حالانکہ جس قرار داد کی عراق نے خلاف ورزی کی ہے وہ تو صرف اور صرف ایک ہی قرار داد ہے، اس کے برعکس یہودیوں نے پچاس قرار دادوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔ اس سلسلہ میں مغربی ممالک کے سربراہوں میں سے کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی، اس سے بھی آگے بڑھ کردیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب صہیونی حکومت نے معاہدے پر دستخط سے انکار کردیا، اس وقت یہودیوں کے خلاف معروف و مشہور سورماؤں میں سے کسی نے اپنی زبان سے ایک جملہ تک نہیں نکالا، حالانکہ یہ پورا خطہ آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹنے کے لئے تیار ہے بس ایک چنگاری کو ہوا دینے کی ضرورت ہے اور پور ا خطہ اس کی آتش فشانی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ اس پرُفتن ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کسی صورت میں بھی مناسب نہیں ہے مگر صہیونی ہیں کہ اپنی ہٹ دھرمی پر اترے ہوئے ہیں اور اپنے تکبر وعناد پر قائم ہیں ۔ اُنہیں کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ اُنہیں صرف اپنے ذاتی مفاد سے مطلب ہے اور اُنہوں نے صدام کو اپنا ہتھکنڈہ اور ایجنٹ بنایا ہوا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اعدائے اسلام جو پلاننگ بنارہے ہیں، صدام حسین اسی کا نفاذ کرتا ہو ادکھائی دیتا ہے۔ ہماری امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے درخواست ہے کہ وہ خلیجی ممالک کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں کیونکہ اس عربی خطہ کے تمام خلیجی ممالک بذات خود اپنے اپنے ملکوں کے ذمہ دار ہیں ۔ ان میں سر فہر ست مملکتِ سعودی عرب ہے اور ان تمام خلیجی ممالک کو حق خودارادی حاصل ہے کسی دوسرے ملک کو ان کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔