کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 24
میں تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کا سبب وہ فوجی انقلاب ہیں جس کے خطرے سے یہ علاقہ دوچار ہے جومختلف ناموں سے گاہے بگاہے رونما ہوتے رہتے ہیں کبھی تو یہ ’ذوالبعث ‘ کے نام سے جنم لیتا ہے اور کبھی قومیت ووطنیت کے نام سے تو کبھی ’ اشتراکیت‘کے نام سے اس کو منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ ان پارٹیوں سے اسلام کا ذرہ برابر تعلق نہیں ہے بلکہ اس سے بھی کم کوئی پیمانہ ہو تو میں کہوں گا کہ اس کے برابر بھی اس کا اسلام سے واسطہ نہیں۔ صدام حسین بھی انہی باطل نظریات کی پیداوار ہے۔ اس طرح دین اسلام اور علوم نبویہ کی بیخ کنی کی گئی تاکہ اسلامی قوانین کی بالادستی کو ختم کرکے ان قوانین وضعیہ کو مسلمانوں کے سرتھوپ دیا جائے۔ مسلمانوں کا استحصال کیاگیا اور حق کی آواز کو دبانے اور اس کے نورانی چراغ کو ناتواں پھونکوں سے بجھانے کو کوشش کی گئی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا امیر طبقہ مغربی ممالک میں سکونت پذیر ہوگیا اور وہ ممالک کمزوری کا شکار ہو گئے جہاں انقلابات آئے اور فوجی چڑھائی ہوئی اور ان میں سے جو اُمت بھی تخت نشین ہوئی ، اس نے اپنے سلف پر خوب لعنت وملامت کی۔ اس نظام کی اثر پذیری کا ثمرہ ہے کہ ابھی تک بعض عرب ممالک جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کو ایسے سنگین جرم سے تعبیر کرتے ہیں جو قابل سرزنش اور لائق عقاب ہے۔فلاحول ولا قوة إلا باﷲ! ہم کہتے ہیں کہ کہاں گئی باہمی ہمدردی اور دعوت و عزیمت کے بلند وبانگ دعوے اور کہاں رہ گئی عزت و کرامت کی قیمتی چادر؟ چنانچہ جب سپر پاور ملکوں کے لئے اسباب مہیا ہو گئے تو وہ ظاہری طور پر فوجی دخل اندازی کے لئے کوشاں نظر آنے لگے کیونکہ اقتصادی طور پر تو اُنہیں پہلے ہی سے بالا دستی حاصل تھی۔ اس لئے مغربی ممالک کی نیتیں خراب ہونے لگیں اور اُن کا فتور اپنی انتہا کو پہنچ گیا حتیٰ کہ وہ اپنی بدنیتی کی وجہ سے اس بات کے خواہاں نظر آنے لگے کہ پہلے تو ان خلیجی ممالک کے پورے خطہ کو بدامنی اور انتشار کی آماج گاہ بنادیا جائے پھر اُنہیں چھوٹے چھوٹے حصو ں میں تقسیم کرکے آپس میں دست و گریباں کر دیا جائے تاکہ یہ اپنی ساری توانائی اسی کشمکش کی نذر کردیں اور اسی دینی اور اعتقادی دشمنی کا نتیجہ ہے کہ سپر پاور ممالک حرمین شریفین کی محافظ سعودی حکومت کے خلاف کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ملک کو عزوشرف کا گہوارہ بنادے اور اس کی عظمت اور شان کو دوبالا کردے اور اس کی شہرت میں چار چاند لگا دے۔کیونکہ یہی وہ مملکت