کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 23
جدید دونوں میں اپنے عقائد اور دین کے معاملہ میں مسلمانوں سے دشمنی میں ید واحد کی طرح باہم متحد ومتفق تھے، ہیں اوررہیں گے،اگر چہ آپس میں ان کا کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو؟ مگر جب اسلام کے خلاف کوئی مہم چلانی ہوگی اس میں وہ اپنے شدید اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر یک آواز ہوجاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ1﴾ [1]
’’ اور آپ سے یہود و نصاریٰ ہرگز ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں۔‘‘
اسلام کے خلاف کفار کا حسد وبغض
فلسطین میں صیہونی(یہودی) حکومت کی داغ بیل ہی اسلام کے خلاف محاذ آرائی اور اس اسلامی خطہ میں امن وامان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے ڈالی گئی ہے تاکہ اس علاقہ کا امن وامان غارت ہو کر بے چینی اور بدامنی کی فضا قائم ہو جائے۔ اس سے عالم اسلام پر مغرب کے استعمار یا اس کی نوآبادیاتی نظام نے براہ راست عقائد ونظریات پر اور مسلمانوں کے معاشرتی وسماجی ماحول پر منفی اثرات چھوڑے ہیں جس کی ضرور رسانی کا مسلمان ابھی تک مزہ چکھ رہے ہیں۔ ان ضرر رساں امراض میں سے ایک مرض یہ بھی ہے کہ عالم اسلامی سے اسلامی عدالتوں کا صفایا ہوگیا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نے اس کی جگہ لے لی ہے اور اسلامی عدالتوں کی جگہ کورٹس اور ہائی کورٹس قائم کردئیے گئے ہیں۔ لیکن الحمد ﷲ مملکت سعودی عرب ابھی تک اس بری بلا سے محفوظ ومامون ہے یہی وہ واحدملک ہے جس میں اسلامی عدالتی نظام قائم ہے اور یہی وہ ملک ہے جہاں اسلامی قانون کو بالا دستی حاصل ہے ۔ جہاں شرعی اعتبار سے فیصلے صادر ہوتے ہیں اور یہی وہ ملک ہے جہاں عقیدۂ توحید کا پرچم لہرا رہا ہے اور قال اﷲ وقال الرسول کا فلک بوس نعرہ بلند ہو رہا ہے!!
عصر حاضر میں یہود ونصاریٰ نے مل کر اجتماعی طور پر اس اسلامی خطہ (جزیرہ عرب) کے لئے پیہم مشکلات اور مصائب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور خلیجی اسلامی ممالک کو جنگی چھاؤنیوں
[1] سورة البقرة:120