کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 20
اور پیار ومحبت کا معاملہ طے پاسکتا ہے؟کیونکہ روافض خلفاے ثلاثہ کو برا بھلا کہتے ہیں اُنہیں گالی گلوچ تک کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ اگر وہ ذرا عقل وخرد سے کام لیں تو ان کو اس حرکت کے انجام کا پتہ چل جائے مگر وہ لوگ اس سلسلہ میں﴿ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۰۰۱۷۱﴾ ‏‏‏‎‏‎‏‎‎ کا مصداق ہیں کہ ان کو عقل ودانش سے واسطہ ہی نہیں ہے، ورنہ ان کو ایسا کرتے ہوئے پس وپیش محسوس ہوتا کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا اور اُن کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانا گو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر براہ راست لعن طعن کرنا ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتۂ قرابت ہے۔ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں ،دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وزیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں زندگی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ممدومعاون تھے اور موت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں آرام فرما ہیں۔ گویا یہ حضرات موت و حیات دونوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور مصاحبت سے مشرف ہیں۔ کون ہے جس کو یہ شرف اور مقام حاصل ہے؟ مزید برآں ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت میں تمام غزوات میں حصہ لیا ہے۔ ہمارے خیال میں عقیدۂ رفض کے بطلان کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے اور مزید دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے داماد ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوبیٹیاں آپ سے منسوب ہیں اور آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی مصاحبت کے لئے افضل ترین لوگوں کا انتخاب ہی فرمایا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے ثلاثہ کے بارے میں اسلام دشمنی کا پردہ فاش کیوں نہیں کیا؟ اور اس قضیہ سے لوگوں کو متنبہ کیوں نہیں فرمایا؟ خلفائے ثلاثہ پر لعن طعن اور ان کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات بھی لعن طعن کی زد میں آتی ہے کیونکہ سیدناعلی نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر پوری رضامندی سے مسجدِ نبوی میں بیعت خلافت کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی اُمّ کلثوم رضی اﷲ عنہا کا رشتہ دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پربیعتِ خلافت کی اور آپ دورِ خلافت میں ان کے وزیر و مشیر کی حیثیت سے ساتھ دیتے رہے۔ ہم کہتے ہیں کہ رافضیوں کے اعتقاد کے مطابق کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات سے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کسی کا فر کو دیں؟ اور کیا یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی