کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 18
دوست ہیں۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں تو ہم حق بجانب ہوں گے کہ اسلام اور یہودیت کے درمیان کسی بنیاد پر بھی ہم آہنگی اور یکسانیت کی صورت پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ اسلام اپنی پاکیزگی، رعنائی، روشنی، انصاف پسندی، اپنے عفوودرگذر، فیاضی ، نرمی ، ہمہ گیری، اپنے اخلاق کی بلندی اور اِنس و جن میں سے ہر ایک کے لئے اپنی عمومیت اور آفاقیت میں اپنی مثال آپ ہے جب کہ یہود کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی قومیت پرستی، مذہبی تعصب، تنگ نظری، اور تمام انسانیت سے اپنے بغض وحسد، کینہ و کدورت، اخلاقی انحطاط، گمراہی ، کجروی ، اپنی بخیلی اور ہوس پرستی میں منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ چنانچہ ایک مسلمان مریم علیہا السلام جیسی صدیقہ ،عابدہ اور زاہدہ ،پاکیزہ اور ستودہ صفات عورت پر کس طرح تہمت طرازی کرنے کی جرات کرسکتا ہے؟ جبکہ یہودیوں کی بیباکی اور جرات کا اس بات سے اندازہ لگایا سکتا ہے کہ وہ حضرت مریم علیہا السلام پر (نعوذ باﷲ) زنا کی تہمت لگاتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ یہود تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ولد الزنا قرار دیتے ہیں۔ مسلمان اس قسم کی تہمت طرازی اور بہتان بازی کو کیوں کر برداشت کرسکتے ہیں؟ یہ بات کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم جو کہ حقیقت میں کلام اﷲ ہے، اس میں اور شیطانی پٹارے تلمود میں برابری اور یکسانیت روا رکھتے ہوئے دونوں کو ہم پلّہ تصور کیا جائے۔ ایسا کسی صورت میں بھی ممکن نہیں اور ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا کہ تلمود اور قرآن میں فرق نہ کیا جائے۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کس بنیاد پر ہم آہنگی اور قربت ہو سکتی ہے اور کیونکر یہ دونوں مذاہب یکسا ں اور یکجا ہو سکتے ہیں؟ عیسائیت کی حقیقت اسلام تو دین توحید ہے اور نہایت ہی صاف وشفاف عقیدے کا حامل ہے۔ اس کی شریعت کا مل و مکمل ہے۔ دین اسلام رحم پروری، فیاضی ، عفودرگذر، عدل و انصاف روا رکھنے والا دین الٰہی ہے جب کہ عیسائیت ایسا دین ہے جس کے اُصول ومبادی میں سے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے بیٹے ہیں یا وہ خود اﷲ ہیں یا وہ باپ اور روح القدس میں سے ایک ہیں، یعنی ان تینوں میں سے ایک ہیں۔ کیا عقل سلیم اس بات کو قبول کرسکتی ہے کہ کسی معبود اور بندے کے درمیان رشتہ قرابت ہو؟