کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 17
درس دیتی ہے۔ دین اسلام کی طرف سے مسلمانوں کو اس بات کا مکلّف قرار دیا گیا ہے کہ وہ حق کی حمایت کریں اور اس کی مدافعت وحمایت میں سینہ سپر ہو جائیں اور باطل کے خلاف خم ٹھونک کرمیدان میں اُترپڑیں اور اس کا قلع قمع کرکے ہی دم لیں اور جب تک باطل پسپا نہ ہوجائے، اس وقت تک چین کا سانس نہ لیں۔ جہاں تک تمام کے تمام ادیان ومذاہب میں ہم آہنگی ویکسانیت کا معاملہ ہے اس سلسلہ میں ہم بحیثیتِ مسلمان یہ بات کہنے کے حقدار ہیں کہ اس قسم کی تحریک ، دین اسلام اور تعلیماتِ اسلامیہ کے منافی عمل ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس قسم کی دعوت فتنہ وفساد اور انسانیت کے زوال کا پیش خیمہ ہے ۔ اس سے بہت بڑے فتنہ کی رونمائی کا اندیشہ ہے اور ایسا اقدام عقیدۂ اسلامی میں بگاڑپیدا کرنے اور ایمان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے۔ اﷲ کے دشمنوں سے راہ ورسم ہموار کرنا اور ان کے لئے موالات ومساوات کی دعوت دینا ہے۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے مؤمنین کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ صرف آپس میں راہ ورسم اور اخوت ومحبت کا رشتہ بحال رکھیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ1ۘ﴾[1] ’’مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ومعاون اور دوست ہیں۔‘‘ یہود کی حقیقت اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات سے باخبر کردیا ہے کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگارہیں۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب سے منسلک ہوں اور چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ1ۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ1﴾[2] ’’ اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے
[1] سورة التوبۃ:71 [2] سورة المائدة :51