کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 16
’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو اقوام اور قبائل میں اس لئے تقسیم کر دیا ہے کہ تم لوگ آپ میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اﷲ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔‘‘ تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام میں کسی قسم کا تعصّب اور تنگ نظری نہیں پائی جاتی اور جہاں تک تمام ادیان میں قربت اور ہم آہنگی کا معاملہ ہے تو یہ بات اسلام کے لئے کامل طور پر بعید از قیاس ہے کہ وہ یہودیت اور نصرانیت سے قربت اور نزدیکی کی بات کرے بلکہ اس بات کا تصور بھی محال ہے چہ جائیکہ وحدتِ ادیان کی بات کی جائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ مَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُۙ۰۰۱۹ وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ۰۰۲۰ وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ۰۰۲۱ وَ مَا يَسْتَوِي الْاَحْيَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ1 اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَآءُ1ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ۰۰۲۲﴾ [1] ’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اور نہ تاریکی اور روشنی ہی برابر ہو سکتی ہے اور نہ چھاؤں اور دھوپ میں کوئی تناسب ہے اور نہ ہی زندہ اور مردہ ایک جیسے ہو سکتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے مگر آپ ان لوگوں کو سنا نہیں سکتے جو قبروں میں ہیں۔‘‘ جہاں تک مسلمانوں کی یہودیوں اور نصرانیوں سے ہم آہنگی کی بات ہے، بایں طور کہ مسلمان اپنے بعض شعائر دینی اور کچھ احکاماتِ شرعی سے دستبردار ہوجائیں اور اپنے دین اسلام کی فرماں برداری میں تساہل سے کام لیں یا یہودیوں ونصرانیوں سے مودت و رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا بعض احکاماتِ دینیہ کی فرمانبرداری اور اتباع سے گریز کرتے ہوئے چشم پوشی کی راہ اختیار کریں تو ہمارا دعویٰ ہے کہ ایک سچے اور پکے مسلمان کا ضمیر یہ بات گوارا کرنے کے لئے ہر گز ہرگز تیار نہ ہوگا اور ایسا شخص اس طرح کا اقدام کرنے سے پہلے اپنے نفس کی لعنت و ملامت کا شکار ہوجائے گا۔ ہاں ان تمام حقائق کے باوجود ایک مسلمان کو اس کا دین اس بات کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسری قوم کے لوگوں پر ظلم روارکھے یا اُن پر بے جا زیادتی کرے بلکہ شریعتِ اسلامیہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی عدل وانصاف سے پیش آنے کا
[1] سورة الفاطر : 19۔23