کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 15
میں برابر ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے سو ا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ربّ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔‘‘
اسلام یہود ونصاریٰ کو امن کے سلسلے میں احکامات کے سلسلہ میں مجبور نہیں کرتا اور ان کو ان کے دین سے دست برداری کے لئے اُن کے ساتھ سختی کرتا ہے نہ ان کے اسلام قبول کرنے کے لئے کوئی جبری اقدام کرتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے تشدد کا اسلام قائل ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ1ۙ۫ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ1ۚ﴾ [1]
’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔ بلاشبہ ہدایت کجروی سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہیں۔‘‘
تو پتہ یہ چلا کہ دین اسلام ہی اصل دین ہے اور یہود و نصاریٰ کا دین باطل ہے ۔ اسلام نے اس بات کا اعلان اس لئے کیا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ دین محمدی ہی لوگوں کے لئے نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ بات دین اسلام کی زندہ دلی، فیاضی اور انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کی جیتی جاگتی تصویر ہے تاکہ جو ایمان لانا چاہے، وہ برضا ورغبت ایمان کے دائرے میں داخل ہوجائے اور جو ایمان نہ لانا چاہے، اسے کون دائرۂ ایمان میں داخل کرسکتا ہے؟
اگر یہود و نصاریٰ اور مشرکین اسلام قبول کر لیں تو اسلام کا دامن رحمت اور اس کی آغوش فطرت کی بے پناہ کشادگی اُن کے لئے کافی وشافی ہوجائے گی اور دین اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے ہی وہ مسلمانوں کے بھائی بن کر ان کی ہمدردی اور بھائی چارگی کے مستحق قرار پاجائیں گے کیونکہ اسلام کے اندر تعصب اور عناد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کے درمیان تعصب اور قومیت کی جڑ کاٹتے ہوئے دوٹوک انداز میں اعلان فرمادیا ہے:
﴿ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا1 اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ1﴾[2]
[1] سورة البقرۃ : 256
[2] سورة الحجرات: 13