کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 125
کے حق میں دستبردار ہو جایا کرتے تھے ۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے ،ا ن کا کوئی جائیداد وغیرہ کا تنازعہ بھی کسی کے ساتھ نہ تھا، اُنہوں نے جو کچھ کمایا اور بنایا، وہ اپنی محنت سے اور اللہ کے فضل و کرم سے۔ ان کے پاس کوئی لمبی چوڑی جائیداد اور پراپرٹی بھی نہ تھی کہ کوئی ان کی جان کا دشمن بن جاتا۔ وہ اپنے خاندان کے بزرگ تھے اور سب انہیں اَز حد احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے ، وہ ایسے دور اندیش تھے کہ عام لوگ بھی ان سے اپنے خاندانی اور ذاتی معاملات حل کرواتے تھے ۔مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کے وہ سخت خلاف تھے ،وہ خود ہمیشہ مثبت انداز میں قرآن وسنت کی دعوت پیش کرتے رہے اور اسی کی طرف سب کو دعوت دیتے اور اسی راستے کی ہدایت کرتے تھے ۔اندریں حالات کوئی فرقہ وارانہ انتہا پسند اُن کی جان کا دشمن نہ ہو سکتا تھا۔
تاہم ایک بات ان کے حاسدین کو بہت کھٹکتی تھی اور وہ تھا، مکتب دعوۃ میں ایک بڑے عہدے پر اُن کا فائز ہونا اور سعودی عرب کے علما اور زعما کی نظروں میں اُن کی عزت و احترام۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃاللہ علیہ کو شہید کر کے ان کی شہادت کے پیچھے خفیہ ہاتھ سعودی عرب کو کچھ پیغام دینا چاہتے ہیں۔ یہ حلقے ڈاکٹر صاحب کی شہادت کو بھی کراچی اور ڈھاکہ میں سعودی عرب کے سفارتی عملہ پر حملے کی ایک کڑی قرار دے رہے ہیں ،اُن کا خیال ہے کہ اس شہادت کے پیچھے کچھ غیر ملکی خفیہ ہاتھوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کی نماز جنازہ سے قبل مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سینئر نائب امیر علامہ عبدالعزیز حنیف نے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ سات روز کے اندر اندر ڈاکٹر صاحب کے قاتلوں کو گرفتار کرے اور ان کی گاڑی و مسروقہ اشیا کو برآمد کرائے ، بصورتِ دیگر ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے اگلے روز راولپنڈی اسلام آباد میں اہل حدیث مکتبِ فکر کے علماے کرام، زعما، سرکردہ افراد اور ذیلی تنظیموں کا ایک بڑا اجلاس مرکز اہلحدیث، جی 6 میں منعقعد ہوا، جس میں ڈاکٹر صاحب کی شہادت اور آنے والے مراحل سے نپٹنے کے لئے سید عتیق الرحمٰن شاہ صاحب کی قیادت میں ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے شب و روز