کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 124
میں اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کر رہے تھے تو اُن سمیت ہزاروں شرکا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اُن کی ہچکیوں سے پتہ چل رہا تھا کہ ایک بڑے عالم دین اس جہاں سے رخصت ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ کا سب سے بڑا اور تیسرا اجتماع خانیوال میں ہوا جہاں عشا کی نماز کے بعد نمازِجنازہ ادا کی گئی اور آزاد ذرائع ابلاغ کے مطابق 35سے چالیس ہزار کے لگ بھگ افراد نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے ۔اسلام آباد، فیصل آباد اور خانیوال میں ڈاکٹر صاحب کے چہرے کا دیدار کرنے والے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور سفاک قاتلوں کے خلاف ان کے دل سے دعائیں نکل رہی تھی۔لاکھوں مسلمانوں ، ہزاروں علماے کرام اور اولیا کی یہ دعائیں قاتلوں کو اللہ کی زمین پر سکون سے کیسے چلنے دیں گی، وہ دن دور نہیں کہ اللہ کی زمین اُن پر تنگ ہوتی جائے گی اور وہ اسی زندگی میں ذلیل و رسوا ہو کر عبرتناک انجام سے دو چار ہونگے ۔ ان شاء اللہ ابتدائی میڈیکل رپوٹس اور شواہد کے مطابق مہمانوں کے رُوپ میں آنے والے درندہ صفت قاتلوں نے ڈاکٹر صاحب کے منہ اور ناک پر کپڑا ڈال کر، اُن کا سانس بند کر کے انہیں شہید کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُنہیں شہید کرنے سے قبل بے ہوش کیا گیا کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی بارعب شخصیت اور طویل قدو قامت کے باعث دو افراد کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اُنہیں آسانی کے ساتھ دبوچ لیتے۔تاہم یہ بات یقینی ہے کہ قاتل انتہائی تجربہ کار اور تربیت یافتہ تھے، ان ظالموں نے یہ واردات اس قدر مہارت کے ساتھ کی کہ گھر میں موجود ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ اور پڑوس میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، قاتل جب گاڑی لے کر فرار ہوئے تو محلے کے بعض افراد نے اُنہیں گاڑی لے جاتے دیکھا مگر وہ اس خیال سے خاموش رہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں اکثر ملاقاتی آتے رہتے تھے ۔اور کیا معلوم کے یہ ان کے کوئی جاننے والے ہوں !! علامہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃاللہ علیہ کو شہید کیوں کیا گیا، اُن کا کیا جرم تھا، قاتلوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ کس کا ہے ، وہ کس کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے ؟ ۔ یہ سب کچھ ابھی پردہ راز میں ہے ۔ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃاللہ علیہ کا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہ تھا، وہ جھگڑوں اور تنازعوں میں پڑنے والے شخص تھے ہی نہیں، وہ تو اکثر اپنے جائز حقوق سے بھی دوسروں