کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 122
واپس آئے اور اہلیہ سے کہا کہ بے چارے مسکین ہیں، کھانے کے لئے کچھ دے دیں، اہلیہ نے کھانا بنانا چاہا تو کہا: جو کچھ موجود ہے ،وہی دے دیں چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے لئے میتھی سے پکائی گئی دو روٹیاں ’مہمانوں ‘ کو دے دی گئیں ۔ ڈاکٹر صاحب برتن لے کر آئے تو پھلوں کی ٹوکری لے جا کر سفّاک مہمانوں کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ واضح رہے کہ اس وقت ڈاکٹر صاحب اور اُن کی اہلیہ کے سوا گھر میں کوئی نہ تھا، ان کا بیٹا سعد یونیورسٹی گیا ہوا تھا ..... ڈاکٹر صاحب کی عادت تھی کہ دیر تک مہمانوں کے پاس بیٹھے رہتے ، اُن کے ساتھ گفتگو کرتے، ان کے مسائل سنتے ،قرآن و حدیث کے مطابق آنے والوں کی رہنمائی کرتے ، یوں اکثر اوقات مہمان گھنٹو ں بیٹھے رہتے۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی ہمدرد اور شفیق شخصیت کے مالک تھے ، ان کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ بسا اوقات مہمانوں کو اپنی گاڑی پر چھوڑنے بھی چلے جاتے تھے ..... سہ پہر چار بجے نماز عصر کےلئے الارم نے بجنا شروع کیا تو ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے نمازِ عصر ادا کی، اسی دوران گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز آئی، اہلیہ یہ سمجھیں کہ ڈاکٹر صاحب مہمانوں کو چھوڑنے گئے ہیں مگر وہ دیر تک واپس نہ لوٹے تو اہلیہ نے موبائل پر فون کیا مگر موبائل بند تھا۔ ڈاکٹر صاحب کبھی اپنا موبائل بند نہ کرتے تھے ،اہلیہ کو تشویش ہوئی توSMSکیا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اسی دوران اُن کا بیٹا سعد یونیورسٹی سے واپس آیا تو ماں بیٹے نے ڈرائنگ روم میں دیکھنا چاہا مگر وہ اندر سے لاک تھا اور ڈرائنگ روم کے پردے گرے ہوئے تھے ۔ بیٹے سعد نے سوراخوں سے جھانک کر دیکھا تو اُنہیں شک گزرا کہ ڈرائنگ روم میں پڑے بیڈ پر کوئی لیٹا ہے،سعد ڈاکٹر صاحب کے بیڈ روم سے ملحق ڈرائنگ روم کا دروازہ توڑکر اندر داخل ہوئے تو اس خوف سے تھوڑی دیر رک گئے کہ ابو دروازہ توڑکر اندر داخل ہونے پر ڈانٹیں گے مگر اب پیار و محبت سے ڈانٹنے والے ابو میٹھی نیند سو چکے تھے، اُن کے اوپر کمبل اوڑھا ہوا تھا اور ان کا ایک ہاتھ باہر نکلا ہوا تھا۔ سعد بیٹے نے اپنے ابّو کو یوں بے خبر سوتے کبھی نہ دیکھا تھا۔اُس نے آگے بڑھ کر کمبل ہٹایا تو اس کی چیخیں نکل گئی، اس کے ابو کا جسم ازار بندوں سے جکڑا ہوا تھا اور وہ ابدی نیند سو رہے تھے ۔کچھ دیر دونوں ماں بیٹا سکتے کی سی کیفیت سے دوچار ہو رہے ،پھر سعد نے ہمت کر کے اپنے بڑے بھائی حافظ مسعود اظہر کو خانیوال فون کیا مگر اس کے منہ سے رونے کے سوا کوئی آواز نہ نکل رہی تھی ۔ بڑے بھائی نے