کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 121
کی پیشکش کی گئی مگر وہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر کو ہر بار طرح دے جاتے کیونکہ ان کے خیال میں ان عہدوں کو برقرار رکھنے کے لئے جس جوڑتوڑکی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس ’خوبی‘ سے محروم تھے ۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ بہت ذہین اور فطین شخص تھے ،وہ ہر چیز کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے۔ میں نے ایک بار اُن سے کہا کہ اگر آپ عالم دین نہ ہوتے تو بہت بڑے نقاد ہوتے، ا س پر وہ کھل کھلا کر ہنسے اور میری تائید کی ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃاللہ علیہ کے علمی مقام، ان کے اندازِ تحریر، اُن کی خطابت، ان کی تحقیق اور بطورِ مفسر و محدث اُن کے مقام کا جائزہ لینے کا یہ محل نہیں اور نہ ہی اس مختصر مضمون میں ایسا ممکن ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کا سانحۂ شہادت اور سفر آخرت
علامہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ عالمِ اسلام کا ایک قیمتی اثاثہ تھے،جنہیں سترہ مارچ کو وفاقی دارالحکومت میں دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا اور سفاک قاتل اُن کی گاڑی، موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیا لے کر فرار ہو گئے۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ گذشتہ تقریباً تین عشروں سے سعودی سفارتخانے کے ایک ذیلی ادارے مکتب الدعوۃ کے ساتھ وابستہ تھے اور ریسرچ سکالر ذمہ داریاں ادا کررہے تھے۔ وہ ساری زندگی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساتھ وابستہ رہے تاہم پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر اور دینی و علمی حلقوں میں اُنہیں انتہائی عزت و احترام کی نگا ہوں سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے مداحوں اور چاہنے والوں کا حلقہ تمام مکاتبِ فکر اور پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔
17/ مارچ2012ء کوجب ڈاکٹر صاحب کو شہید کیا گیا، ہفتے کا دن تھا، دفتر میں چھٹی تھی، ڈاکٹر صاحب گھر پر ہی تھے کہ تقریباً دوپہر اڑھائی بجے کے قریب گھر کی گھنٹی بجی۔ حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ کے بقول ڈاکٹر صاحب نے خود دروازہ کھولا، مہمانوں کے رُوپ میں آنے والے قاتلوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اہلیہ سے چائے بنانے کو کہا اور دو انگلیوں سے اشارہ کیا، اہلیہ نے دو مہمانوں کے لئے چائے بنا کر دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ڈاکٹر صاحب