کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 120
ڈاکٹر صاحب کے خطبات اور دروس بلاشبہ بے مثال تھے لیکن ميرے خیال میں ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سوال و جواب کی نشست اُن کے خطابات سے بھی بڑھ کر علم و حکمت پر مبنی ہوا کرتی تھی۔ وہ بڑے بڑے پیچیدہ مسائل کا اتنا سہل اور عام فہم انداز میں جواب دے دیتے کہ سائل لاجواب ہو جاتا۔ ان کے ساتھ سوال و جواب کی نشستیں علم وحکمت کا خزینہ بھی ہیں اور نئے خطبا، علما اور مقررین کے لئے مشعل راہ بھی۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ نے مکتب الدعوۃ میں کم و بیش ستائیس برس کام کیا اور بڑے اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ۔ اُنہوں نے مکتب الدعوۃ کے کئی مدیروں کے ساتھ کام کیا لیکن مکتب الدعوۃ کے موجودہ مدیر شیخ محمد بن سعد الدوسری کے تقویٰ اور سادگی کے وہ بہت مداح تھے اور اکثر اُن کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔ شیخ دَوسری بھی ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور دونوں کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ کے موقع پر شیخ دوسری کے چہرے سے اندازہ لگا یا جاسکتا تھا کہ وہ غم کی کس کیفیت سے دو چار ہیں۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ پاکستان میں سعودی عرب کے غیر سرکاری سفیر تھے۔ دین اسلام کی اشاعت، اُمتِ مسلمہ کی فلاح و بہبود اوربطورِ خاص حجاج کرام اور معتمرین کے لئے سعودی حکومت کی خدمات کا ڈاکٹر صاحب اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے ۔ ایک دور تھا جب علماے کرام اور بزرگانِ سلف جماعتی اور حکومتی عہدے قبول کرنے سے بھاگتے تھے۔وہ اِن عہدوں کو ذمہ داری تصور کرتے تھے اور یوم آخرت کی جوابدہی کے احساس کے پیش نظر اُنہیں قبول نہیں کرتے تھے مگر آج بڑے بڑے صاحبانِ علم و تقویٰ اور موحد ہونے کے دعویداران بتوں کے سامنے نہ صرف سجدہ ریز ہیں بلکہ اُنہیں حاصل کرنے کےلئے باقاعدہ جو ڑتوڑاور سازشیں کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔میرے علم اور معلومات کی حد تک ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ نے جماعتی عہدوں کے حصول کے لئے کبھی کوئی بھاگ دوڑنہیں کی بلکہ وہ اُن سے گریزاں نظر آتے تھے ۔ ان کا تو یہ حال تھا کہ اگر کسی مسجد میں کوئی ایک نمازی اُن کے پیچھے نماز نہ پڑھنا چاہتا تو وہ وہاں خطابت بھی چھوڑکر الگ ہو جاتے اور ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ان کو متعدد بار مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان میں مرکزی عہدوں