کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 119
ہوتا تو گاڑی نکالتے اور چل پڑتے اور کئی کھانوں کا آرڈر دے دیتے، یوں لگتا جیسے اپنے مہمانوں ، دوستوں اور علماے کرام کو کھانا کھلانا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہو، ان کی نظریں دوسروں کی جیب پر نہیں ہوتی تھیں بلکہ دوسروں کی دعوت کا بل بھی وہ خود دینے پر اصرار کرتے۔ اسلام آباد کے معروف ہوٹل بیسٹ ویسٹرن کے کھانے ان کو بہت پسند تھے۔ ایک بار فرمانے لگے کہ آج Best Westernچلتے ہیں، میں نے کہا شرط یہ ہے کہ بل میں دوں گا۔اُنہوں نے زور دار قہقہہ لگایا مگر معلوم نہیں کہ اُنہوں نے کب بِل ادا کر دیا۔ میں نے ویٹر کو بل لانے کےلئے کہا تو فرمانے لگے: آپ لیٹ ہو گئے ہیں ۔ بیس پچیس برس کے دوران تین چار مواقع کے علاوہ شاید ہی اُنہوں نے کبھی مجھے بِل ادا کرنے دیا ہو۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کے اندر یہ خوبی دیکھی کہ انہیں اپنے احباب اور کارکنان کے مسائل کا ادراک بھی ہوتا تھا اور احساس بھی۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃاللہ علیہ کے روابط اور تعلقات مختلف جماعتوں کے قائدین کے ساتھ بھی تھے اور عام لوگوں کے ساتھ بھی ۔ بڑے بڑے عہدیدار اور سرمایہ دار اُن کے پیچھے پیچھے پھرتےمگرحافظ صاحب کوچین غریب اور نادار لوگوں کے درمیان محسوس ہوتا۔وہ غریب و نادار لوگوں کی چھپ چھپ کر مدد بھی کرتے اور ان کے کام آنے کی کوشش بھی کرتے۔علماے کرام کے ساتھ اُنہیں خصوصی لگاؤ اور محبت تھی اور وہ کسی عالم دین کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہ کرتے تے۔ تمام مکاتبِ فکر کے بڑے بڑے علماء ڈاکٹر صاحب کے پاس تشریف لاتے اور بڑے پیچیدہ مسائل پر اُن سے گفتگو کرتے ۔ ڈاکٹر صاحب چند ہی منٹو ں میں اُنہیں کافی و شافی جواب دے دیتے۔ڈاکٹر صاحب نے ایک بار مجھ سے فرمایا کہ میں نے آج تک کوئی تقریر دوبارہ نہیں کی ۔ واقعہ یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا ہر خطاب، ہر درس اور ہر وعظ پہلے سے مختلف ہوتا۔ ایک ہی موضوع پر ان کے بیسیوں خطبات سن لیں۔ ہر ایک میں ایک نیا انداز، ایک نئی دلیل اور ایک نئی چاشنی ہو گی ۔
ڈاکٹر صاحب بلاشبہ خطابت کے بادشاہ تھے، وہ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں فی البدیہ بول سکتے تھے اور دلائل کے انبار لگاتے چلے جاتے تھے، وہ قرآن پاک کی آیات اس روانی کے ساتھ پڑھتے جیسے اوراق اُن کے سامنے کھلتے جا رہے ہوں اور وہ پڑھتے چلے جا رہے ہوں ۔