کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 118
کتب بھی شائع کیں۔شعبان سن 1400ھ بمطابق1978 ء میں اُن کا داخلہ عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ میں ہو گیا جہاں وہ اگست 1984ء تک علم کی اعلیٰ منازل طے کرتے رہے۔ وہ تعلیم مکمل کر کے واپس پاکستان آئے تو30ستمبر1984ء کو اُنہیں مکتب الدعوۃ میں داعی کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں ، تب مکتب کا دفتر لا ہور میں تھا۔ یکم ستمبر1987ء کو مکتب الدعوۃ کا دفتر لا ہور سے اسلام آباد منتقل ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے بھی اسلام آباد کواپنا مسکن بنا لیا مگراپنے آبائی علاقے سے اُنہوں نے اپنا ناطہ ٹوٹنے نہ دیا اور وہاں بھی دعوت و تبلیغ اور اشاعتِ دین کا کا م پورے شد و مد کے ساتھ جاری رکھا۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر کے حالاتِ زندگی، اُن کی تعلیم و تعلّم کے دوران کے دلچسپ احوال و واقعات، دعوت و تبلیغ کے میدان میں اُن کے طویل تجربات اور سعودی عرب کے علما اور زعما کے ساتھ اُن کے گہرے تعلقات و مراسم کی تفصیلات کا احاطہ کسی ایک مضمون میں کرنا ممکن نہیں ، یہ ایک ضخیم کتاب کا موضوع ہے اور ان شاء اللہ یہ قرض جلد چکانے کی کوشش کی جائے گی۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔ اُن کا شمار عالمِ اسلام کے جید علمائے کرام میں ہوتا تھا۔ وہ بیک وقت جید عالم دین، بہترین خطیب، صاحبِ طرز ادیب،شعلہ نوا مقرر، دلوں میں اُتر جانے والے واعظ، ہمدرد و غمگسار دوست اور ہر ایک کے لئے شفیق انسان تھے ،یہی وجہ ہے کہ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میری یاد اللہ کم و بیش پچیس برسوں پر محیط ہے۔ ان سے چند روز ملاقات نہ ہوتی تو خود فون کر کے بُلا لیتے ۔ یہ راقم جب بھی ان سے ملاقات کے لئے گیا، اُن کے ہاں ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا تھاجن میں ہر مکتب فکر کے افراد شامل ہوتے، وہ سب کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے ، سب کی خاطر مدارت کرتے اور مقدور بھر ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتے۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃاللہ علیہ بڑی نفیس طبیعت کے مالک تھے، اُن کے کھانے پینے کا ذوق بھی بڑا اعلیٰ تھا، اچھے اچھے ریستوران اور ہوٹل اُن کے علم میں ہوتے تھے، کئی بار انہوں نے دریافت کیا کہ فلاں ہوٹل نیا بنا ہے، آپ نے وہاں کھانا کھایا، اگر جواب نفی میں