کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 116
اُٹھاتے رہے۔ جب حافظ صاحب نے یہ محسوس کیا کہ میزبان مجھ سے انشورنس کے جواز کا فتویٰ لینا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہوئے دسترخوان سے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ گگآپ نے دسترخوان پر جو اہتمام کیا ہے ، میں اس کا خرچ آپ کو ادا کر سکتا ہوں ،یہاں سعودی عرب میں میرے رہنے کی جگہ بھی ہے مگر میں آپ کو انشورنس کے جواز کا فتویٰ نہیں دے سکتا۔‘‘ایسے متعدد واقعات کئی مقامات پر پیش آئے جن کے عینی شاہد موجود ہیں۔اس طرح کی حق گوئی اور ایسی صفات بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں ،ورنہ بڑے بڑے صاحب ِعلم وعرفان کھانے کے کشادہ دسترخوان پر شہید ہو جاتے ہیں اور مصلحت کی چادر اوڑھ کر خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ میں ایسے کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں ، سو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب جیسے باہرسے نظر آتے تھے: صاف شفاف، ایسے ہی اندر سے بھی تھے۔ ان میں پیشہ ور واعظوں والے نخرے نہیں تھے لیکن بہرحال وہ بھی ایک انسان تھے اور انبیاء علیہم السلام کے سوا ہر انسان میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں، وہاں کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اور یہ کوئی خوبی نہیں ہوتی کہ انسان دوسرے کی کمزوریاں ہی تلاش کرتا رہے ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ آج ہم میں نہیں ، وہ شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہو کر ان شاء اللہ اَبدی کامیابی حاصل کر چکے ہیں مگر ان کی باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃاللہ علیہ جب سے شہید ہوئے ہیں ، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اُنہیں یاد کر کے دِل غمگین نہ ہوتا ہو.....متعدد بار ایسے ہوا کہ گھر میں ، دفتر میں بیٹھے بیٹھے ، بازار میں چلتے پھرتے، راستے میں گاڑی چلاتے ڈاکٹر صاحب یاد آنے لگے اور آنکھوں نے بلا اختیار برسنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، افسوس کہ ان کی وہ قدر نہ کی گئی جس کے وہ مستحق تھے اور اُن سے وہ فائدہ نہ اٹھا یا گیا جس کے وہ اہل تھے اور جس کی ہمیں ضرورت تھی۔ حافظ صاحب کےسوانح حیات ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ یکم فروری 1953ء کو بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے