کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 115
عالم دین بھی تھے ،ادیب بھی، خطیب بھی، صاحبِ قلم بھی اور دعوت و تبلیغ کا علَم بھی تھامے ہوئے تھے ۔پورے ملک میں ہی نہیں بیرون ملک بھی ان کے چاہنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔اور یہ سب کچھ اُنہیں اللہ کے دین کی خدمت کے صلے میں حاصل ہوا۔تحصیل علم کےلئے حافظ صاحب جب گھر سے نکلے تھے تو خالی ہاتھ تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو علم، شہرت، دولت، ہر چیز سے نوازا۔ ایک اَن پڑھ خاندان کا یہ چشم و چراغ اب ہزاروں لوگوں کو علم کی روشنی پہنچا رہا تھا، اُن کی زندگیاں سنوار رہا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب بہت موڈی تھے، کم آمیز اور زود رنج تھے کہ جب ان کا موڈ ہوتاکسی سے بات کرتے ، ورنہ طرح دے جاتے تھے۔میں ڈاکٹر صاحب کو پچیس برس سے دیکھ رہا ہوں ، اُن کے سینکڑوں دروس میں حاضری دی، ان کے ساتھ طویل نشستیں کیں ، اُن کو حضر میں بھی دیکھا اور سفر میں بھی۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک منکسر المزاج شخص ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوددار بھی تھے اور خود دار انسان استغنا پسند بھی ہوتا ہے جسے بعض لوگ ’موڈی‘ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔خود دار ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ صاحب مصلحت پسندی کی ’صفت‘سے نا آشنا تھے۔ وہ جسے حق سمجھتے تھے ، دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتے اور یہ نہیں سوچتے تھے کہ سننے والے کے نازک مزاج پر یہ حق کتنا گراں گزرے گا یا ا س کے ماتھے پر کتنی شکنیں پڑیں گی۔ یہ غالباً سعودی عرب کے تاریخی شہر جدہ کا واقعہ ہے۔حافظ صاحب اپنے بچوں سمیت وہاں مقیم تھے ،وہاں کے ایک دولت مند پاکستانی کو سعودی عرب میں آپ کی موجودگی کا علم ہوا تو آپ سے رابطہ کر کے اپنے گھر میں ناشتے کی دعوت دی۔اُن کے بے حد اصرار کے باعث ڈاکٹر صاحب نے یہ پیشکش قبول کر لی ۔ اگلے روز ناشتے پر انواع و اقسام کے ماکولات اور مشروبات جمع تھے ۔ ناشتہ شروع ہوا تو میزبان نے انشورنس کے مسئلے پر ڈاکٹر صاحب کی رائے معلوم کرنا شروع کر دی۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اُن کو بتایا کہ انشورنس کی موجودہ صورت جائز نہیں ........ میزبان نے چونکہ چنانچہ کا سہارا لے کر پھر دریافت کیا تاکہ اس کے جواز کی کوئی صورت نکل سکے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن کو متعدد بار بتایا کہ میرے علم کے مطابق یہ جائز نہیں مگر صاحب ِدسترخوان پینترے بدل بدل کر سوالات