کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 114
یہ1988ء کی ایک سرد رات تھی....وفاقی دارالحکومت کے پوش سیکٹر ایف 7کے ایک بڑے مکان کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں ، میں اپنے ایک دوست حافظ رضا ء اللہ جو آج کل ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز ہیں، کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کُھلا اور ایک دراز قامت نوجوان اندر داخل ہوئے جن کے نورانی چہرے پر سیاہ داڑھی بڑی خوبصورت لگ رہی تھی....’’یہ ہیں حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ ، معروف عالم دین ہیں ، مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور بڑے زندہ دل انسان ہیں اور حافظ صاحب یہ ہیں میرے دوست خالد سیال۔‘‘ حافظ رضاء اللہ نے ایک ہی سانس میں ہم دونوں کا تعارف کروا کر ہمیں آمنے سامنے کر دیا اور خود قہوہ پیالیوں میں اُنڈیلنے لگے ۔ ’’کیا حال ہے خالد صاحب‘‘! ......یہ تھا وہ پہلا جملہ جو حافظ صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا اور وہ اتنے مستقل مزاج تھے کہ جب ان سے ملاقات یا ٹیلیفون پر گفتگو ہوتی تو ادھر سے پہلا جملہ یہی سنائی دیتا کہ ’’کیا حال ہے خالد صاحب‘‘ ! اس پہلی ملاقات میں حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا جو تاثر قائم ہوا، وہ آخر تک نہ صرف قائم رہا بلکہ ان کی شخصیت اور کردار کی خوبیاں ہر ملاقات کے بعد کھلتی چلی گئیں۔ ایف 7 کے اس کمرے میں حافظ رضاء اللہ کی وساطت سے ڈاکٹر صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ، اُن کے ساتھ طویل بحث مباحثے ہوئے ،دینی، معاشرتی اور سیاسی موضوعات پر اکثر اُن سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا، وہ ہر موضوع پر بڑی صائب اور نپی تُلی رائے رکھتے تھے ۔ حافظ صاحب بہت خوش خوراک اور ہنس مکھ تھے..... متعدد بار ایسا ہوا کہ ہم ایف 7سے پیدل نکلتے، بلیو ایریا میں عثمانیہ یا کسی دوسرے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے اور پھر پیدل ہی واپس چل دیتے۔ راستے میں حافظ صاحب کبھی لطیفے سنا کر ہنساتے اور کبھی لا حول ولا قوة إلا بالله کہتے ہوئے آخرت کی یاد دلاتے..... لاحول ولا قوة إلا بالله کے جملہ سے حافظ صاحب کی زبان اکثر تر رہتی تھی۔ نجی ملاقاتوں کے دوران تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد لاحول ولا قوة إلا بالله پڑھنا اُن کی عادت سی بن گئی تھی۔ حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ بلا شبہ علم کا سمندر تھے ۔آپ پی ایچ ڈی ڈگری لے کر ڈاکٹر بھی بن گئے تھے لیکن درحقیقت وہ کسی ڈگری کے محتاج نہ تھے ۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃاللہ علیہ