کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 111
وہ تنظیموں کی ضرورت تھے۔
میں نے ایک دفعہ اسلام آباد میں ’عقیدہ کلاس‘جاری کی۔ لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے یہ عقیدہ کہاں سے سیکھا کہ بڑی نادر باتیں آپ بتلاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ سب فیض ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اَظہر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ ہم کیا ہیں، ہم تو اُنہی کی باتیں آپ کو بتا رہے ہوتے ہیں۔ میں نے رُبع صدی سے اب تک جو منبر و محراب سنبھالا ہوا ہے تو اس میں جہاں حافظ عبدالمنان نوری پوری، حافظ عبداللہ بہاولپوری ،مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری رحمۃاللہ علیہم کا حصہ ہے؛ وہاں ایک بڑا حصہ شہید حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے ۔ مقالاتِ تربیت میں حضرت حافظ صاحب کا مقالہ پڑھا تو بے ساختہ میں نے کہا کہ حضرت آج مجھے مولانا اسماعیل سلفیرحمۃاللہ علیہ کی جھلک نظر آرہی ہے۔کیونکہ محدثین کے فہم پر جامع بیان مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اُن کے مقالات میں نظر آیا۔ آخری دنوں میں صحیح بخاری کی کتاب التوحید جس کی شرح حضرت مولانا حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ نے لکھی ہے ، عنایت فرمائی۔ ہم زوجین کے سبق بخاری کا اختتام اس طرح فرمایا کہ یہ صحیح بخاری کی آخری کتاب ہے، اس پر میرا مقدمہ پڑھ لینا اور شرح سیکھ لینا۔ اسی طرح مسئلہ سُود اور اِسلامی بینکاری کے بارے میں ایک کتاب ’جانبِ حلال‘ عنایت فرمائی تو کہنے لگے کہ اس کا صرف مقدمہ ہی پڑھنا۔ کتاب میں جو موقف اِختیار کیا گیا ہے میں نے مقدمہ اُس کے خلاف ہی لکھا ہے ۔ یہ کتاب مولانا خلیل الرحمٰن جاوید صاحب کی لکھی ہوئی ہے۔
ہم سوچ رہے تھے کہ حافظ صاحب سے مزید بہت کچھ سیکھا جائے ۔ ان کا سارا علم سمیٹ لیا جائے لیکن جتنا مقدر تھا وہ سمیٹا تو خوب سمیٹا! ...ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی تھا ۔
إن لله ما أخذ وله ما أعطٰى وكل شيء عنده بأجل مسمى
پس اَب تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے: اللهم لا تحرمنا أجره ولا تفتنّا بعده
سینیٹر پروفیسرساجد میر امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث کے تاثرات
’’جامعہ سعیدیہ میں آج کی حاضری ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات پر اظہارِ افسوس اور تعزیت کے لئےتھی۔ اللہ ڈاکٹر صاحب شہید کی خدماتِ جلیلہ کو قبول فرمائے اور اُنہیں بلند درجات سے نوازے ۔ نیز جامعہ کی تعلیمی و تدریسی بہتری و ترقی کے سامان خود مہیا کرے اور حافظ مسعود اور ان کے رفقا کو توفیق دے کہ وہ اس سلسلہ کو اچھے طریقے سے جاری رکھ سکیں ۔ آمین!‘‘