کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 110
اُستوار رہا۔راقم الحروف کو وہ وقت بھی یاد آتے ہیں جب ’تدریب الدعاۃ‘ کے کورسز جامع مسجد القدس چوک دالگراں لاہور او رپھر مسجد اہل حدیث لوکو ورکشاپ لاہور میں منعقد ہوا کرتے تھے جن میں حافظ عبد الرحمٰن مدنی حفظہ اللہ تحریکوں (الملل والنحل) کے جائزہ میں ؟؟؟کےساتھ ڈاکٹر اظہر صاحب بھی لیکچر دیتے تھے۔ الفقہ الاکبر (عقیدہ )اور الفقہ الاصغر (فقہ) کے اُصول ہم نے باضابطہ موصوف سے پڑھے چونکہ ان کلاسوں کی نظامت راقم کے ذمہ ہوتی جس میں موصوف کے لانے اور جانے کاانتظام مجھے کرنا ہوتا تھا تو ایک دفعہ وسن پورہ سے لوکو شیڈ ورکشاپ جانا ہوا۔ میرے پاس چائنہ کی سائیکل تھی تو بلا تذبذب سائیکل پر پیچھے بیٹھ گئے، تب میں حیران ہوگیا کہ اُنہوں نے سائیکل سواری کرلی؟! اِسی طرح ایک دفعہ اسلام آباد سے لاہور پڑھانے کے لئے آنا تھا تو وقت بچانے کے لیے ہوائی جہاز پر آگئے تب بھی میں حیرت زدہ ہوگیا کہ کس قدر ذِمہ داری کا احساس اور وعدہ کا پاس تھا اُنہیں ؟ وفات کی خبر سن کر مجھے مولانااعجاز احمد تنویر کا فون آیا۔ وہ ان ایام کا تذکرہ کر رہے تھے جب لوکو ورکشاپ کی مسجد میں حضرت حافظ صاحب طلباء وعلماء کو پڑھانے آیا کرتے تھے۔ آخری دنوں میں جب ہم زوجین، حضرت حافظ صاحب مرحوم سے بخاری شریف پڑھنے جا رہے تھے کہ اس دوران ایک دفعہ مجھ بتانے لگےکہ آپ کے رشتہ دار مولانا عبدالکریم دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ،جن کو فوت ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں، وہ میرے سگے پھوپھی زاد تھے۔ میں نے کہا آپ نے اُن کو کیسے یاد کیا۔کہنے لگے: دراصل وہ میرے اُستاد کے اُستاد تھے۔ پوچھا وہ کیسے؟ کہنےلگے: مولانا داؤد رحمۃ اللہ علیہ میرےاُستاد ہیں اور وہ اُن کے استاد تھے۔ پھر میں نے کہا:آپ مولانا مشتاق صاحب کو جانتے ہیں، وہ میرے چچا لگتے تھے۔کہنے لگے: ہاں وہ بھی میرے اُستاد کے اُستاد ہیں۔ تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اَساتذہ کو کس قدر یاد رکھا کرتے تھے؟ زندگی بھر صالحین کی صحبت کے متلاشی رہے۔ اچھے وقتوں کی بات ہے کہ حافظ محمدیحییٰ عزیز میرمحمدی رحمۃ اللہ علیہ کے مرکز بونگہ بلوچاں (موجودہ نام البدر) کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ جی چاہتا ہے کہ اسی بستی میں مکان بنایا جائے۔ جب مریدکے میں ایک مرکز شروع ہوا تو کہنے لگے کہ یہاں کوئی پلاٹ مل جائے تو ۔ اسی طرح کی خواہشات کا وقتاً فوقتاً اِظہار کیا کرتے ، ہم نے علماء کی قدر دانی اُن سے سیکھی۔ علماے کرام پر تنقید بھی بہت فرماتے لیکن علما کا دفاع کرنے پر آتے تو آخری حد تک جاتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ ایسے عالم تھے جن کو سلف کی ایک تعبیر کے مطابق ’الامۃ‘کہا جاسکتا ہے۔ہماری تنظیمیں اور جماعتیں حافظ صاحب کی ضرورت کبھی نہیں رہیں، بلکہ