کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 109
اوّلاً تو کہنے لگے: اپنے ابا جی کی تفسیر پڑھو(تیسیر القرآن)۔ پھر بولے میری کتاب پردے و الی پڑھو پھر جیسے ذہن حاضر ہوتا ہے۔ کہنے لگے:حافظ عبدالسلام بھٹوی کی تفسیر سورہ نور بھی آگئی ہے، وہ پڑھو۔ کام کی باتیں ہوں گی۔ دارالاندلس سے پتہ کرو، شاید اُنہوں نے الگ بھی چھاپی ہو۔ حافظین محترمین (حافظ عبد السلام بھٹوی اور حافظ عبد المنان نورپوری) کا تذکرہ بڑے اچھے انداز میں کیاکرتے۔ خصوصاً حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ کی فصاحت و بلاغت اور شعری ذوق کا عموماً تذکرہ کرتے تھے۔
انہی آخری مجلسوں میں حافظ عبدالمنان رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد اُن کا تذکرۂ خیر کرتے ہوئے ایک دن کہنے لگے: مجھے عموماً کتابوں میں بہت غلطیاں نظر آتی ہیں لیکن حافظ عبدالمنان رحمۃ اللہ علیہ کا کمال ہے کہ اُن کی کتب سے کوئی غلطی پکڑی نہیں جاسکی،کم از کم مجھے نہیں مل سکی؛ نقطہ نظر اور مسائل میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر اغلاط معدوم ہیں۔
خواب ہوئیں وہ یادیں ، وہ باتیں جواَب ہمارے پاس محض حسرت ہی حسرت ہیں۔ حافظ صاحب کے گھر سے واپس آئے تو میری جھوٹی بیٹی پوچھتی ہے: امّی جی! آپ نے حافظ صاحب کو دیکھا۔ میں نے کہا: زندگی میں نہیں دیکھا تو اب کیوں دیکھتی؟ اللہ کے احکامات تو وہی ہیں۔ شعوری طور پر نہیں دیکھا، اتنا لمبا ساتھ رہا، نظر پڑ جانا اور بات ہے، لیکن اللہ ربّ العزت نے اپنے دین اور نام کی برکت سے جو تعلق بنایا تھا، وہ الحمدللہ ان حدود وقیود میں ہی نبھتا رہا۔
اس تعلق کے منقطع ہونے پر دُکھی تو ہم ہیں ہی او رکچھ ہاتھ سے نکل جانے کا غم تو ہمیں ہی برداشت کرنا ہے۔ ورنہ اللہ ربّ العزت کی جناب سے قوی اُمید ہے کہ وہ اس وقت جل جلالہ کی برکات سے بہت کچھ پا ہی رہے ہوں گے ، وصول ہی کررہے ہوں گے کیونکہ ان کے کھونے کا وقت گذر چکا۔ اللهم اغفرله وارحمه، وعافه واعف عنه....
اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده... آمین یا إلٰه العٰلمین!
! من کان باکیًا فلیبك علىٰ فقد العلم والعلماء !
حافظ عبد الرشید اظہر... ابو عبد الربّ انجنیئرعبد القدوس سلفی کی یادیں
میری زوجہ محترمہ باقاعدہ حضرت حافظ صاحب کی شاگرد رہیں تاہم راقم الحروف کا بھی باقاعدہ شاگردی کا سلسلہ اِتنا ہی طویل ہے۔ ہماری شادی سے قبل جب میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا، تب سے حضرت حافظ صاحب سے تعلق بنا اور پھر اسلام آباد میں تا وفات