کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 108
اللهم إني عبدك وابن أمتك، ناصيتي في يدك، ماض في حکمك، عدل فيّ قضاءك، اسئلك بکل اسم هو لك سميت به نفسك ... [1]
حافظ صاحب محترم اپنی گونا گوں خصوصیات اور ہمہ جہت صفات کی وجہ سے زندگی میں بھی متنازع شخصیت رہے او روفات کے بعد بھی وہ مختلف الخیال لوگوں کی آرا سے مامون نہیں ہیں اور یہ چیز ،میں ایمان وعقیدے کی بنا پر سمجھتی ہوں کہ ان شاء اللہ ان کے لئے کفارہ سیئات و بلندئ درجات کا سبب ہے او راللہ ربّ العزت جب تک چاہیں گے یہ حسنات ان کے نامہ اعمال میں درج ہوتی رہیں گی۔
ایک بار درسِ حدیث کے دوران «لا حسد إلا في اثنتین» کا مفہوم بیان کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ حسد کا معنی مذموم و بُرائی نہیں ہوتی بلکہ اس کا معنی فی الواقع رشک بھی ہے اور کل ذي نعمة محسود ہر منعم علیہ پر رشک کیا جاتا ہے۔ آج کل بھی عرب کسی کا حال پوچھتے ہیں ۔ اس کا حال بہت اچھا ہو تو جواب ہوتا ہے: هو محسود یعنی وہ قابل رشک ہے۔ بُرا ہو تو کہا جاتا ہے هو غیر محسود اس کی حالت قابل رشک نہیں ۔ مجھے خیال آرہا ہے کہ حافظ صاحب زندگی بھر بھی محسود تھے اور اب بھی:
إذا أراد الله نشر فضیلةٍ طُويت أتاح لها لسان حَسود[2]
’’اللہ ربّ العزت جب کسی کی مخفی فضیلتوں کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اسے حاسدوں کی زبان پر چڑھا دیتے ہیں۔‘‘
محترم حافظ صاحب اپنے مخصوص مزاج کے باوجود بزرگوں کے ادب و احترام اور ان کے تذکرہ خیر کا بہترین انداز رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ جب کسی کی تنقیص بھی کرتے تو بعد میں ان کے حق میں ایک دو جملے خیر کے ضرور کہتے۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کا تذکرہ بڑے عقیدت مندانہ انداز میں کرتے بلکہ ایک دن یہ بھی کہا کہ مولانا بتلاتے ہیں کہ آپ کی باجی مسز ثریا بتول علوی ان سے پڑھی ہوئی ہیں۔ علما کا شجرۂ نسب اُنہیں حفظ ہوتا تھا اور وقتاً فوقتاً علمی سندیں اور سلسلے سنایا کرتے تھے۔ اب جو اُن سے آخری گفتگو فون پر ہوئی جس میں انہوں نے آنے کی دعوت دی۔ وہ اصلاً میں نے یہ پوچھنے کے لیے کیا تھا کہ میں نے سورہ نور پڑھانی ہے، کس کتاب کا مطالعہ کروں؟
[1] مستدرك حاكم: رقم 1877
[2] موسوعۃ الدفاع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ج2؍ص47