کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 107
نے گرایا ہے۔ جو وقت لکھا تھا، آخر وہ آکے رہتا ہے۔میں حافظ صاحب کی اہلیہ محترمہ اور بچیوں کے ساتھ بیٹھی تعزیت کررہی تھی کہ اللہ ربّ العزت نے جو الفاظ میری زبان سے ادا کرائے، وہ یہ تھے: باجی! میرا اور آپ کا ایمان ہے کہ حافظ صاحب کے کوچ کا یہی وقت اللہ کے ہاں طے شدہ تھا۔ وہ بندے نہ بھی آتے تو بھی یہی اجل مسمیّٰ تھا۔ گھر میں اگر سارے افراد بھی ہوتے تو اللہ کے حکم کو ٹال نہیں سکتے تھے تو پھر ہمیں تو شکرگزار ہونا چاہیے ،اُن لوگوں کا جنہوں نے جاتے جاتے حافظ صاحب کے درجات بلند کردیئے او ران کے گناہوں کو سمیٹ کر لے گئے۔ میری مراد ہابیل کے اُن الفاظ سے تھی جو اس نے اپنے بھائی کی بدنیتی بھانپتے ہوئے کہے تھے: ﴿لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِيْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ يَّدِيَ اِلَيْكَ لِاَقْتُلَكَ1ۚ اِنِّيْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۲۸اِنِّيْۤ اُرِيْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِيْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ1ۚ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِيْنَۚ۰۰۲۹﴾ [1] ’’اگر تو میری طرف اس لیے ہاتھ بڑھائے کہ تو مجھے قتل کرڈالے تو میں پھر بھی تیری طرف ہاتھ نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں۔ کیونکہ میں اللہ ربّ العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے او راپنے سارے ہی گناہ سمیٹ لے اور تو اصحاب النار میں سے ہوجائے اور ظالموں کی یہی جزا ہے۔‘‘ اللہ ربّ العزت بڑے رحیم و کریم ہیں، وہ اپنے بعض بندوں کو بلند مقامات سے نوازنا چاہتے ہیں۔ لیکن بشری کمیوں، کوتاہیوں کی وجہ سے وہ اگر ان مقامات تک نہیں پہنچ پاتے تو اللہ رب العزت ان کے لیے اس طرح کے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ جو اُن کے گناہوں اور کوتاہیوں کاکفارہ بن سکیں او ران کی بلندئ درجات کا موجب قرار پائیں۔ یقیناً رحمٰن و رحیم کے فیصلے اس کی مخلوق کے حق میں بہت ہی بہترین ہیں اس وقت میرے ذہن میں حافظ صاحب کی ادعیہ جو بہت ہی دل سوزی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، گونج رہی ہیں: اللهم اقسم لنا من خشیتك ما تحول بيننا وبين معاصيك... اللهم اجعل ثأرنا على من ظلمنا وانصرنا على من عادانا ولا تجعل مصیبتنا في دیننا... ولا تسلط علينا من لا يخافك فينا ولا یرحمنا. [2]
[1] سورۃ المائدۃ [2] سنن النسائی الکبریٰ: رقم10235