کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 106
پھر حافظ صاحب کی بھرپور راہنمائی اور بھرپور شفقت کے سائے میں ’معہد التعلیم والتزکیہ، اسلام آباد‘ کی بنیاد رکھی۔ جس کی افتتاحی تقریب میں حافظ صاحب نے تزکیہ و تربیت کا مفہوم سمجھایا اور حصولِ تزکیہ کا نبوی منہج بتایا۔اس کے بعد بھی گاہے بگاہے راہنمائی کرتے رہے۔ ان آخری دنوں میں ان کے فیض کو عام کرتے ہوئے میں نے ’عقیدہ اسلامی‘پڑھایا۔ میں نے پوچھا: شرکاکو سند دینی چاہیے۔ حافظ صاحب نے تائید کی، ٹھیک ہے: دو۔پھر مجھے سند تیار کرائی۔ میں نے پوچھا : حافظ صاحب ’مُشرف‘(نگرانِ علمی) کے دستخط کریں گے، بولے: صرف اس بار؟ میں نے کہا: نہیں، مستقل! جواب دیا: ٹھیک ہے۔
شرکاے دورہ میں ایک صاحبہ باہر سے آئی ہوئی تھیں او راُنہیں واپس جانا تھا۔ ان کی خوش قسمی کہ اُن کو جلدی جلدی سند تیار کرکے دی جس پر حافظ صاحب نے دستخط بھی کئے۔بقیہ اسناد اطمینان کے ساتھ دستخط کرنے کے لیے تیار رکھی تھیں جو رکھی ہی رہ گئیں اور فرشتہ اَجل سبقت لے گیا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون. ماشاء الله کان وما لم یشاء لم یکن!
15/ مارچ بروز جمعرات، وفات سے دو دن قبل میں نے فون کیا: اُستاذ صاحب! کچھ پوچھنا ہے،آجائیں؟اپنے مخصوص لہجے میں بولے:آجاؤ آجاؤ۔آج ہے وقت، پھر سفر اور دروس ہی دروس ہیں۔ میں نے کہا: موسم کھلا آگیا ہے، کیا تقریبات ہیں؟ بولے: ختم بخاری کا موسم ہے، پھر رمضان ہے اور چل سو چل اپنی مصروفیات کی ایک لمبی فہرست سنا دی۔ اللہ کا کرنا ابوعبدالربّ دفتر سے لیٹ آئے، تھکے ہوئےبھی تھے۔ بولے، آج نہیں، اتوار کو چلیں گے۔غرض جو چیز مقدر میں نہ ہو، بس زندگی کی وہ آخری ملاقات ہی بن گئی جو دس مارچ بروز جمعرات مع فیملی اُن کے ہاں کھانا کھایا اور حافظ صاحب اس وقت نمازِ مغرب سے قبل جلدی میں تھے۔ اُنہیں بھارہ کہو جانا تھا۔ کہنے لگے: احباب نے کوئی مسجد بنانی ہے، تو جلدی جلدی جیسے اجازت طلب کرتے ہیں یا اطلاع دیتے ہیں تو یہ کہہ کر چلے گئے۔
حافظ صاحب انتہائی چست اور پھرتیلے، جلدی جلدی کام سمیٹنے والے تھے ۔ اُن کی وفات کےموقع پر لوگ مختلف تبصرے کررہے تھے کہ ان کو شہید کرنے والے دو ہی تو بندے تھے، پھر حافظ صاحب نے مزاحمت نہ کی۔ کیا اُنہیں پتہ نہ چلا ،اُنہوں نے شور نہ مچایا۔ اُنہیں لوگوں نے کیسے گرایا ہوگا؟ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: حافظ صاحب!جس طرح سے معاملہ فہم اور متنبہ طبیعت کے آدمی تھے، شاید اُنہیں چھ بندے بھی نہ گرا سکتے۔ انہیں بندوں نے نہیں، موت