کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 105
کہنے لگے: ’’آج میں نے راستہ میں کچھ باپردہ خواتین کے بے پردہ نام پڑھے۔‘‘ وہ دن گیا کہ ہم نے اشتہارات پر نام لکھوانا تو بہت دور، حتیٰ الوسع اشتہار چھپوانا ہی ختم کردیا۔کوئی بہت مجبوری ہو تو اس وقت یا پھر کنیت۔ شعو ری طور پر سمجھا کہ ہر عام و خاص کی زبان پر خواتین کا نام آنا اُن کے وقار کے منافی ہے۔ حسن اتفاق کہ 2000ء میں، راقمہ بھی ابوعبدالربّ کی سروس کی وجہ سے اسلام آباد منتقل ہوگئی ۔ یہاں الحمدللہ بہت اچھی ہمسائیگی رہی بلکہ حافظ صاحب نے ہمیشہ فیاضی او رمیزبانی کا رویہ رکھا۔ بچوں کوگھمانا پھرانا، کھلاناپلانا، دو فیملیوں کا متعدد مقامات پراکٹھے سیر کو جانا تو بہت ہی یادگار ہے۔حافظ صاحب انتہائی عمدہ ذوق رکھتے۔ مناظر فطرت سے گہرا لگاؤ تھا۔ جڑی بوٹیوں، درختوں، پھولوں کی پہچان اور خواص کو جاننا پہچاننا،کچھ کچھ حکمت کا ذوق بھی پایا تھا۔ سیر کے دوران تبصرے جاری رہتے۔ بہت سے نسخے،متفرق بیماریوں کے بہت سے علاج بتلایا کرتے۔ ایک طرف مناظر فطرت کے شیدا تھے اور دوسری طرف ہر نئی سیر گاہ حافظ صاحب نے ہی دکھائی۔ میرے بچے بڑے ہورہے تھے اور ان کے بچوں کے بچے (پوتے و نواسے)بھی بڑے ہورہے تھے۔ بعض خانگی مسائل کی وجہ سے کچھ دیر باہمی تعلقات میں تعطل رہا۔ گو کہ اس تعطل کے دوران بھی علمی تعلق بہرحال برقرار ہی رہا۔ تاہم مسائل کا پوچھنا، درس و تدریس میں حاضری، یا اُن کو دعوتِ درس دی تو بہرحال قبول کرلی۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ بہت سی طالبات اور شاگردوں کے کہنے پر میں جو متفرق جگہ کلاس لے رہی تھی، اس کو ایک جگہ منظّم کرنے کا پروگرام بن گیا۔ 2010ء کے آخر میں جب یہ پروگرام بنا تو سب سے پہلے میں نے حافظ صاحب سے حاضری کی اجازت مانگی کہ میں ان کی علمی رہنمائی کے بغیر شاید کچھ نہ کرپاؤں ، سو اجازت دے دی۔ میں اور ابو عبدالربّ گئے۔ سلام دعا کے بعد مجھے عرضِ مدّعا یا معذرت کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔ خود ہی کہنے لگے: مجھے آپ لوگوں سے ایک بات پوچھنا ہے ۔ میں نے کہا: جی! بولے ان 20، 25 سالوں میں میری کسی حرکت ، کسی بات، کسی عمل سے کبھی آپ کو یہ شبہ پڑا ہو کہ میں آپ کے ساتھ باپ جیسا سلوک نہیں کررہا؟ میں نے مسعودہ (حافظ صاحب کی بڑی بیٹی) اور فوزیہ میں کبھی فرق نہیں کیا۔ (حافظ صاحب کی دو بیٹیاں شیرخوارگی میں فوت ہوگئی تھیں جن میں سے ایک کا نام فوزیہ تھا) کہا کرتے تھے۔ تم جب آتی ہو تو مجھے لگتا ہے کہ میری فوزیہ آگئی ہے۔ کہا کرتے، چھوٹی اولاد سب سے لاڈلی ہوتی ہے اور جو بعد میں آئے وہی سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔