کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 104
اگر ’بدنیت‘ ہو تو میں دوبارہ کبھی اس طرح کا موقع نہیں بننے دیتا کہ وہ میرے ساتھ بدتمیزی کرسکے۔ ان کی بعض حکیمانہ اور ظریفانہ باتیں بہت ہی یاد آتی ہیں۔ ایک دفعہ بیٹھے اپنی بیگم صاحبہ کی بہت تعریفیں کررہے تھے۔ ان کے شرعی حجاب ، ان کی سادہ لوحی او راطاعت شعاری کو عموماً سراہا کرتے تھے اور غائبانہ بھی ان کے احسان مند رہا کرتے تھے۔تعریفیں کرتے ہوئےکہنے لگے ۔ ویسے بھی آج کل اپنی بیگم کا بہت ہی فرمانبردار ہوگیا ہوں۔ میں نے پوچھا کیوں:بولے، بوڑھا ہوگیا ہوں ناں۔ میں نے پوچھا: اس کا کیامطلب ؟ کہنے لگے: نادانو! آپ نہیں سمجھتے کہ انسان جوں جوں بوڑھا ہوتا ہے ،بیگم کا غلام بنتا جاتاہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں مثلاً 1. اس کی خاطر سارے رشتہ داروں سے کٹ کٹا کر اس عمر میں پتہ چلتا ہے کہ واقعی اس کے علاوہ میرا ہے بھی کوئی نہیں۔ 2. وہ صرف بیوی نہیں، بچوں کی ماں بھی ہوتی ہے۔ او رہر بچے کے ساتھ یہ تعلق بڑھتا ہے۔ 3. تعلق اگر اچھا ہو تو نبھتا ہے نہیں تو ٹوٹ جاتاہے او راگر اچھا ہو تو ہر روز مزید اچھا ہوتا رہتا ہے فقہ پڑھنے کے دوران دو چار دفعہ اوپر تلے ہی ایسے مواقع آئےکہ امام احمد کی کسی مسئلہ میں دو آرا تھیں یااُن سے دو قول ثابت تھے۔ فيه قولان عن أحمد ــ في إحدٰی الروایتین عن أحمد ـــ في أصح القولین عن أحمد تو میں نے استعجاباً سوال کیا کہ امام احمد سے ہر مسئلے میں دو آرا کیوں منقول ہیں۔ شاید میرے انداز میں کچھ بے ادبی یاگستاخی کی بُو محسوس کی۔ حافظ صاحب نے ایک لمبا لیکچر دیا کہ یہ ان کے تبحر علمی کی دلیل ہے ۔ یہ ہر دو طرف کےدلائل پر ان کی گہری نظر کی علامت ہے کہ وہ کسی ایک بات پر اَڑ نہیں سکتے تھے۔ یہ جہلا کم علم، کم فہم لوگوں کا طریقہ ہے کہ ایک بات پر اَڑ جائیں۔ جس کا انہیں علم ہوگیا ہے بس وہی ٹھیک ہے خواہ اس کے مقابل دلائل کا انبار ہو جس پر اُن کی نظر ہی نہیں پڑی۔ احمق! یہ ان کی تنقیص نہیں تعظیم ہے ۔ کم فہمی نہیں گہرائی او رگیرائی ہے۔ میری تربیت میں حافظ صاحب کے جن ارشادات نے اہم کردار ادا کیا ہے ان میں سے یہ اہم ترین بات تھی۔ ایک دن پڑھانے آئے تو راستے میں دیکھا کہ ’مدرسہ تدریس القرآن والحدیث للبنات وسن پورہ ،لاہور ‘کے سالانہ جلسے کے اشتہار لگےہوئے تھے جس میں ہمارے نام لکھے تھے۔ آتے ہی