کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 103
اور بہت ہی خوب پڑھائے کہ ایک مدت تک ان کے اشعار وردِ زبان ہی رہے او ربھی کچھ حکمت و بلاغت کی چیزیں مختلف کتابوں سے ہمارے ذوق کی تسکین کی خاطر ڈھونڈ لاتے او رپڑھایا کرتے۔
مجھے او رمصباح کو ایک شاگرد شمار کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تم دونوں مل کر پڑھو تو پڑھایا جاتا ہے تم دونوں مل کر ایک شاگرد ہو۔ ایک د وسرے کی کمیاں کوتاہیاں دور کرنے والی۔ جو ایک کو سمجھ آتا، دوسری کو نہیں آتا۔ جو دوسری کو آتا ہے وہ پہلی کو نہیں آتا او رپھر سمجھتی بھی ایک دوسرے کی ہو، میری نہیں سمجھتی۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کے آخری ایام میں ہم نے جو اسباق پڑھنے شروع کیے اور ابوعبدالرب بھی ہمارے ساتھ جانے لگے۔ دو چار اسباق ہی پڑھے تو میں نے مصباح کے سامنے تذکرہ کیا۔ اس کو دین سیکھنے کا شوق چرایا۔ الحمدللہ وہ بچوں اور مدرسہ کی مصروفیات سے نکل کر پندرہ دن یہاں ٹھہری اور پھر صبح و شام الحمدللہ یادگار مجلسیں رہیں۔
شیخ نعیم صاحب اپنی ملازمت کے سلسلے میں 1991ء میں اسلام آباد مع فیملی منتقل ہوگئے۔ مکتب الدعوۃ اسلام آباد منتقل ہونے کی وجہ سے حافظ صاحب بھی اپنی فیملی لے آئے۔ یوں نعیم صاحب والے گھر میں دونوں خاندانوں کو تقریباً سال بھر اکٹھے رہنے کا موقعہ ملا جس سے تعلقات مزید پختہ ہوگئے۔حافظ صاحب اس کو احسان سے تعبیر فرمایا کرتے۔ مصباح کا مجھ پر بہت احسان ہے جس نے میرا گھر آبا دکیا ہے۔ اسے اللہ خوش رکھے۔ میں اس کا کس قدر احسان مند ہوں۔ اگر یہ مجھے کہے کہ میرا بچہ رو رہا ہے اور ’مدرسہ تدریس القرآن والحدیث‘ وسن پورہ میں بیٹھے تھے تو مجھے اس بچے کے لیے پیدل چوک ناخدا سے جاکر مونگ پھلی لانا پڑے تو میں ضرور جاؤں گا۔
حافظ صاحب بہت گہری اور حکمت افروز گفتگو کیاکرتے تھے۔ بے انتہا نازک مزاج اور زود رنج بھی تھے۔ ایک دن سبق کے دوران کسی طالب علم کے تیکھے سوالوں پر ناراض ہوگئے۔ وہ طالبِ علم بھی مخصوص مزاج کی وجہ سے مسئلہ کی بہت کرید کرتے۔ تو اس کے بعد ایک دو موقع پر زیادہ کرید کی وجہ سے مجھے پھر سے خدشہ ہوا، کہیں حافظ صاحب ناراض نہ ہوجائیں اور مجھ سے اس بات کا اظہار ہو بھی گیا تو انہوں نے اس کا جو جواب دیا وہ میری زندگی میں میرے بہت کام آیا۔بولے: میری زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ ایک سے زیادہ دفعہ توتکار نہیں ہوئی۔ جب ایک دفعہ توتکاری ہوتی ہے تو میں اچھی طرح لڑتا ہوں اور یہ چیک کرتا کہ یہ ’ناداں‘ ہے یا ’بدنیت‘!!اگر ’ناداں‘ ہو تو میں اس کی بات کا پھر کبھی بُرا نہیں مناتا۔ نظر انداز کردیتا ہوں اور