کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 102
لوگوں کے لیے بہت ہی توجہ اور دلچسپی کا باعث رہا۔ پہلے پہل تو پڑھانے کے دوران میڈیم (ذریعہ تعلیم) اُردو تھا پھر اتنی دیر پڑھانے کے بعد ڈائریکٹ عربی کتب عربی میں پڑھانا شروع کیں جس سے ہمارا عربیت کا ذوق بن گیا۔ الحمدللہ اور اتنابہترین ذوق بن گیا کہ جب 1990ء میں حج کرنے کی سعادت حاصل کی تو علماء سے مسائل پوچھنے پر ذرا دقت نہ ہوئی بلکہ کہیں میں نے کہا کہ میں ضیوف الرحمٰن میں سے غریب الدیار ہوں تو وہ عرب کہنے لگا : والله لسان الفصحاء وانت غریبة ....سبحانك هذا بهتان عظیم حدیث میں ہمیں صحیح بخاری کی کتاب الایمان، کتاب التوحید والرد علی الجہمیہ پڑھائی۔ مسلم کا مقدمہ پڑھایا ۔ موطا کی کتاب النکاح ،ابوداؤد کی کتاب الادب پڑھائی، نسائی سے کتاب الاستعاذہ پڑھائی۔ الحمدللہ ہر کتاب سے کچھ نہ کچھ پڑھایا کہ اصل میں ہمیں پڑھنے کا طریقہ سکھلایا۔ کہا کرتے کہ اُستاد تو پڑھنے کا طریقہ ہی سکھلا سکتا ہے۔ یہ شاگرد کا کمال ہے وہ کیا پڑھتا ہے۔ عربی گرامر پڑھنے کا وقت آیا تو ’الفیہ ابن مالک‘ منگوائی۔ اس سے تقریباً سو صفحے پڑھائے۔ ذوق بنایا کرتے خود عربی ذوق بہت عمدہ تھا، بہت اچھے اشعار پڑھتے اور سناتے تھے ایک دفعہ میں نے کہا: استاد صاحب اتنا شعر و شاعری کا ذوق ہے تو ہمیں کچھ عربی ادب ہی پڑھا دیں : سو متنبّی، امرؤ القیس بھی کہیں کہیں سے پڑھادیں۔ مصباح عبدالستار کے والد شیخ عبدالستار صاحب 1986ء میں فوت ہوگئے تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے ۔ تو بس ایک دن بات چیت کے دوران اُس نے کچھ اس طرح تذکرہ کیا کہ میرے بھائی آپ سے بہت محبت کا تعلق رکھتے ہیں اور ضمناً یہ بات کہ آپ کی شکل بھی میرے ابو سےملتی ہے، حافظ صاحب نے اس کے بعد سے اپنے آپ کو ایک والد کے مقام پر ہی رکھا اور ثابت کیا ۔لفظاً بھی کہا کرتے اور عملاً بھی اس طرح کا رویہ رکھا کرتے۔ عربی ادب پڑھانے کی میری اس فرمائش پرفرمانے لگے: لاحول ولا قوة کوئی باپ اپنی بچی کے سامنے عربی شعر نہیں پڑھ سکتا؟ میں نے کہا کہ آپ اُردو اشعار بھی تو پڑھتے ہیں تو بولے: عربی زبان کے مقابلے میں اُردو انتہائی معصوم او رپاک ہے۔ یہاں زیادہ سے زیادہ نظر آنے والا گند میر و غالب کی غزلیں اور جوش ملیح آبادی کا گند ہے۔ عربی اشعار تو پڑھ کر طبیعت خراب ہوجاتی ہے، آئندہ کبھی ایسی بات نہ کرنا کیونکہ مجھ سے پھر آپ کی بات ٹالی بھی نہیں جاتی۔ لیکن پھر اسی بات کی لاج رکھتے ہوئے ہمیں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور زہیر رضی اللہ عنہ بن کعب کے قصیدے پڑھائے