کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 101
اسلامیہ کے طلبہ کی قائم کردہ تحریک مجاہدین اسلام [1]کی سرپرستی فرماتے رہے ۔ شہادت میں مستقل کالم بھی اسی جہادی ذوق کی علامت تھا۔ جہاد اور مسئلہ تکفیر کے سلسلے میں حافظ صاحب کاذہن بہت واضح تھا ۔ خروج، تکفیر اور ردّ ان کا مزاج نہ تھا۔ اعتدال اور احترام، جمع و تطبیق ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ او ریہ چیز ان کی مجلس میں بیٹھنے والے اصحاب کے لیےاظہر من الشمس ہے۔ جہاد کے بارے میں ان کے نقطہ نظر پر معترض اصحاب سے میری گزارش ہے کہ وہ مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی کی مسئلہ جہاد کشمیر پر لکھی ہوئی کتاب کا مقدمہ از حافظ عبدالرشید اظہررحمۃ اللہ علیہ ضرور ملاحظہ کریں۔ یہ ان شاء اللہ نہ صرف ان کے بارے میں سوے ظنی کے خاتمے کا سبب ہوگا بلکہ قاری کے ایمان و علم میں اضافے کاموجب بھی ہوگا۔ جہاد کشمیر کےسلسلے میں مترد دین اور معترضین کے لیے بھی اس میں کافی و شافی مواد موجود ہے جو اُن کے اشکالات دور کرکے انہیں بصیرت عطاکرسکتا ہے۔ وقتاً فوقتاً حافظ صاحب سے ہرچیز سیکھی یعنی علم کے ہر شعبے کو چکھا۔ قرآن کا ترجمہ مختلف مقامات سے پڑھایا۔ کبھی کوئی رکوع کبھی کوئی رکوع، سورۃ نور مکمل پڑھائی۔ کہا کرتے قرآن مجید ساری عمر پڑھنا چاہئے۔ ایک دفعہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں، ایک دفعہ تفسیر صحابہ وتابعین کی روشنی میں اور ایک دفعہ فقہی نقطہ نظر سے، ایک دفعہ فصاحت و بلاغت کے لیے اور ایک دفعہ گرامر و اعراب کے لیے او رہر دفعہ نصیحت و عبرت کے لیے ...پھر ہر دفعہ مختلف منہج کے مطابق پڑھاتے۔ میراث پڑھائی۔ اس کے لیے عربی کتاب شیخ محمدصالح العثیمین کی ’فقہ الفرائض‘ پڑھائی اور خوب پڑھائی او رکہا کرتے کہ حساب میں نہ پھنسانا تو مسائل سارے پڑھا دوں گا۔ انہی کے فیض کو جاری کرتے ہوئے یہاں معہد التعلیم والتزكیہ للبنات، اسلام آباد میں دورہ میراث بھی کرایا جو
[1] ’تحریک مجاہدین اسلام‘ جامعہ لاہور اسلامیہ سے اُٹھنے والی پاکستانی سلفیوں کی وہ اوّلین تحریکِ جہاد تھی جس نے افغان جہاد میں حصہ لیا۔ جامعہ کے ناظم دفتر اور طلبہ اُمور کے اِنچارج جناب خالد سیف شہید رحمۃ اللہ علیہ اس کے قائد اور روح رواں تھے۔ 1988ء میں اس تحریک نے ’نداء الجہاد‘ کے نام سے پہلا جہادی رسالہ نکالا، راقم جامعہ کی جس رہائش گاہ میں اِن دنوں رہائش پذیر ہے، وہ اس تحریک کا اَوّلین دفتر تھی۔ 1990ء كے رمضان المبارك میں مولانا خالد سیف کی افغانستان میں دلیرانہ شہادت کے بعد اس تحریک کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، انہی سالوں میں مرکز الدعوۃ والارشاد (موجودہ جماعۃ الدعوۃ) نے جہادِ افغان کا محاذ سنبھالا جو بعد اَزاں جہاد کشمیر کی طرف مبذول ہوتا گیا۔ (ح م)