کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 100
لکھا کرتے کہ ہمارے پلّے پڑ جائے او رہفتوں بلکہ مہینوں باہم تبصرہ کرتے۔ درس و تدریس یا خطبے کے دوران ذراتیز بولتے۔ میں عموماً راعنا کی درخواست کرتی اُنظر نا کہتی۔ پوچھتی کہ آپ ذرا ٹھہر ٹھہر کر کیوں نہیں بولتے تو ایک دفعہ کہنےلگے دراصل پائپ چھوٹا ہو او رپانی زیادہ ہو تو پریشر سے نکلتا ہے بس اتنی ساری باتیں او ردلیلیں جمع ہوتی رہتی ہیں کہ بولتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلتا کہ تیز تیز بولنے لگ جاتا ہوں۔ ہمارے اسباق کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا، الحمدللہ بلکہ یہ اسباق مزید بارونق ہوگئے کہ دو طرفہ سوال و جواب ہوتے رہتے اور ایک دوسرے کی وجہ سے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا بلکہ بعد میں بھی ایک دوسرے کے سامنے سبق کی دہرائی ہوتی رہتی۔لیکن دو کتابیں مسلسل پڑھنے کے بعد ایک دفعہ یہ سلسلہ رک گیا۔ بعد میں بلا انقطاع جاری رہا جس میں حافظ کو لانے لے جانے کی ذمہ داری عموماً مصباح عبدالستار کے بھائی یامین صاحب یامعین صاحب ادا کرتے بلکہ بسا اوقات اگر حافظ صاحب کے مدرسہ آنے کاسلسلہ منقطع ہوا ہوتا او رپڑھانے کے دوران کوئی مشکل پیش آرہی ہوتی تو یہ بھائی ہمیں ’قینچی امرسدھو‘ حافظ صاحب کی رہائش گاہ پر لے جاتے، جہاں ہماری علمی مجلس ہوا کرتیں۔ انہی دنوں ایک دفعہ حافظ صاحب نے خود فون کرکے بلوایاکہ رینالہ خورد سے محترمہ آپا جی وحیدہ بانو اپنی شاگردوں سمیت تعلیمی سلسلے میں آکر ٹھہری ہوئی ہیں او ران کی طالبات حافظ صاحب سے گرائمر پڑھ رہی تھیں، ہمیں بلوایا کہ آکر ملو اور پڑھو۔ سو ایک دن ہی جانا ممکن ہوسکا۔ بہرحال اس کے نتیجے میں آپا جی محترمہ (والدہ ذکی الرحمٰن لکھوی) سےایک اچھا تعلق بن گیاجو اُن کی وفات تک خوب نبھا۔ جہاد کے بارے میں موقف جہاد او رمجاہدین کے ساتھ حافظ صاحب کا تعلق بہت ہی اچھا رہا۔ خود لکھوی خاندان کے ساتھ اُن کے بہترین مراسم تھے اور ابتداءً وہ اسی جہادی جماعت سے قریب بلکہ حامی اور ساتھی رہے لیکن بعض جماعتی اور انتظامی معاملات سے اختلاف کی وجہ سےاس تعلق میں کچھ کمی اور سرد مہری آگئی لیکن اس سب کے باوجود جہاد کے مسئلے پراُن کا ذہن بہت واضح اور کلیئر تھا۔ جہاد کے موضوع پر گفتگو کرتے تو حق ادا کردیتے ۔انتظامی اختلافات نے ان کے نظریات و عقائد کو متاثر نہ کیاتھا۔ اپنے موقف کے اظہار کے لیے انہوں نے ایک اور جگہ تلاش کی اور جامعہ لاہور