کتاب: محدث شمارہ 355 - صفحہ 10
ظلم کا مداوا اور جارحیت کا کلّی خاتمہ ایک طفلانہ خواہش سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر اللہ کی یہ سنت ہوتی تو چند روز میں اللہ تعالیٰ محض عظیم قوتِ ایمانی کی بدولت دنیا کی سب سے عظیم ومقرب جماعت،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جزیرہ عرب پر غلبہ عطا کرسکتے تھے، لیکن اس کے لئے اُنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی قیادت میں سالہا سال جستجو کرکے قربانیوں کی داستانیں رقم کرنا پڑیں ۔آج بھی صلح حدیبیہ کی طرح اُمتِ محمدیہ کو پرامن وقت لے کر، اپنی اجتماعیت اور قوت کو متحد کرنے کی منظم منصوبہ بندی کرنا ہوگی، تب ہی ملت اسلامیہ کے موجودہ زوال کا خاتمہ اور کفر کا استیصال ممکن ہوسکے گا۔ 9. تکفیر وخروج کے اس منظر نامے میں تاویلات وشبہات کی اس قدر بھرمار ہے کہ کوئی فرد یا گروہ اپنے تیئں کسی دوسرے فریق پر شرعی حکم لگانے کا مجاز نہیں ، اس موقع پر وقت کی ضرورت یہ ہے کہ علماے کرام غفلت کی تنی چادر اُتار کر، ان مسائل کے بارے میں کلّی اتفاق سے ایک موقف طے کرکے عوام کی رہنمائی کریں۔ اگر امریکی جارحیت ختم ہونے میں نہیں آتی ‎، اہل اسلام کا خون بہے جارہا ہے ، حکومت اپنی ذمہ داریوں سے غافل اور باہمی مفادات کی کھینچا تانی سے ہی فرصت نہیں پاتی، تو مظلوم مسلمان کیا لائحہ عمل اختیار کریں؟ دیگر مسلمانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اس ظلم کے معاونین سے کیا سلوک اور برتاؤ کیا جائے؟اس نوعیت کے کئی ایک سوال جو شریعت کی مہارت کے ساتھ احوال ووقائع سے واقفیت اور شرعی حکمت وبصیرت کے متقاضی ہیں، ان کا فیصلہ علماے پاکستان کا باہمی اتفاق ہی کرسکتا ہے۔ حکمران تاویلات کے پردے اور نظریۂ ضرورت کے تحت وہ سب کچھ کررہے ہیں جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا، کیا وہ تاویل وتوجیہ کے نام پر ہر طرح کا کھیل کھیلنے میں آزاد ہیں؟ یہ پرآشوب حالات علما سے چیخ چیخ کراپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، بصورتِ دیگریہ فکر ی انتشار بڑھتا رہے گا اور ملتِ محمدیہ آپس میں ہی برسرپیکارہوتی جائے گی، اور اس فکری انتشار سے کفر یہی فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے اور وہ اس میں بظاہر کامیاب نظر آتا ہے!! (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)